…پاھار……
بلوچستان،پاکستانی فوج کی جنگی جرائم
کے اذیت ناک آزارکاشکار
ماہ ِ مارچ میں 50سے زائد فوجی آپریشنز میں 71 افرادلاپتہ،
10افرادقتل،200سے زائد گھر نذر آتش
مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جنگی جرائم کی بدستور جاری ہیں جس سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستانی فوج کی جنگی جرائم کی صورت میں بلوچ قوم اپنی سرزمین پرایک اذیت کوش آزار سہہ رہاہے،جہاں آپریشنز لوٹ مار کے ساتھ قابض ریاست کی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی آئے دن شیلنگ و بمباری نے بلوچوں کے لیے انکی سرزمین پرایک قیامت بپاکیا ہوا ہے۔
عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزیاں اب پاکستانی فوج کی معمول بن چکی ہیں،مارچ کے مہینے میں دیگر جرائم کے ساتھ ریاستی فورسز نے زیر حراست پانچ بلوچ فرزندوں کو بھی شہید کیا۔
مارچ کے مہینے میں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ بلوچستان میں 50 سے زائد فوجی آپریشنز میں 71 افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا گیا۔دوران آپریشنز فورسز نے دو سو سے زائد گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ جھاؤ،کوہلو میں سو سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا،جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے سو سے زائد مویشیاں بھی مارے گئے،تین سو سے زائد مویشیاں پاکستانی فوج اپنے ساتھ لے گئے۔
اسی مہینے دس لاشیں ملیں جس میں پانچ بلوچ فرزندوں کو زیر حراست شہید کیا گیا جبکہ ایک بلوچ کو پروم میں پاکستانی فورسز نے فائرنگ کر کے قتل کیا۔ چار لاشوں کے محرکات سامنے نہیں آ سکے۔
مارچ کے مہینے میں 7 افراد فورسز کے عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے،جن میں سے ایک 2014 سے ایک2018 سے تین2019 سے،ایک 2020 سے اور ایک شخص2021 سے زیر حراست تھا۔
ریاستی فورسز نے ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ کوچک میں قائم ایک اسکول پر قبضہ کر کے اسے آرمی کیمپ میں تبدیل کیا،اسی طرح ٹوبہ اور سولیر کے سنگم پر فورسز نے دو نئی چوکیاں قائم کیں۔
مارچ کے مہینے میں ضلع آواران کے مختلف علاقوں جھاؤ،وادی مشکے، گچک،ٹوبہ، سولیر اور ضلع کیچ کے کئی علاقوں سمیت کلبر،پروم،کوہلو میں پاکستانی فوج نے زمینی و فضائی آپریشنز کیے۔
دوسری جانب بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں نے بھی قابض فورسز کا بہادری سے مقابلہ کیا اور فورسز پر درجنوں کاری ضرب لگائے۔پاکستانی جبری قبضہ کے خلاف بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے بیرونی ممالک پروگراموں کا بھی انعقاد کیا گیا۔
دنیا جہاں ایک بار پھر عالمی وبا کرونا کی زد میں ہے اور اس سے عالمی معیشت پر سخت اثرات پڑے ہیں۔پاکستان جو اندورنی طور پر ملٹری اور سیاسی مسائل میں جھکڑا ہو ہے کرونا سے اسے مزید سخت معاشی اثرات پڑیں گے۔پاکستان فوج کی بدنام خفیہ ادارہ آئی ایس آئی نے ایک نئی اتحاد پی ڈی ایم کو بھی چکنا چور کر کے یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان میں صرف اور صرف فوج کا راج ہے اور اس کے سامنے کوئی ادارہ معنی نہیں رکھتا۔
مارچ کے مہینے کی تفصیلی رپورٹ
یکم اپریل
۔۔۔ڈیرہ بگٹی کا رہائشی عبدالرشید کوئٹہ سے گذشتہ دنوں پراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا۔
۔۔۔منظور پشتین کواسد اچکزئی کے تعزیت سے روک کر بلوچستان بدر کردیا گیا
وہ ساتھیوں کے ہمراہ اسد خان اچکزئی کے لواحقین سے تعزیت کیلئے آرہے تھے۔منظور پشتین اور ساتھیوں کو فورسز اہلکاروں چمن جانے کی یہ کہہ کر اجازت نہیں دی کہ ان کے بلوچستان داخلے پر پابندی عائد ہے۔
2 اپریل
۔۔۔ضلع کیچ پاکستانی فوج نے سامی کے علاقے میں آپریشن کر تے ہوئے خواتین،بچوں سمیت بزرگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
۔۔۔پسنی میں منگل کی صبح 10 بجے وارڈ نمبر شش (6) میں واقع بی این ایم کے ممبران ’سمیع اللہ ولد اللہ بخش‘ اور ’بدل ولد لال بخش‘کے گھر پر پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے چھاپے مارے۔چھاپے کے دوران پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گھر والوں کے ساتھ سختی برتی۔خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دونوں سیاسی کارکنان کے گھروں کی تلاشی لی اور گھر والوں کے موبائل فونز میں موجود تصاویر اور کانٹیکٹ نمبرز چیک کیے۔بدل بی این ایم جرمنی ھنکین (زون) کا ممبر اور سمیع اللہ امریکا میں مقیم ہیں اور بی این ایم ڈائسپورا کا کارکن ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع خضدار میں بی این پی کی اپیل پر دو مارچ بلوچ ثقافتی دن لاپتہ افراد اور بلوچ شہداء کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر سادگی سے منایاگیا۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے حب ندی خاص باغ کے مائی گاڑی کے قریب ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔ اس کی شناخت گودھا خان ولد بھوٹا خان سکنہ تمبو ضلع نصیر آباد سے ہوئی ہے۔
3 مارچ
۔۔۔۔مستونگ کے علاقہ دشت سے دو روز قبل گھر سے نکلے نوجوان کی لاش دشت متوار کے ایک کنواں سے برآمد۔ دوزوز قبل گھر سے نکلنے والا نوجوان اورنگزیب ولد خیر بخش قوم رئیسانی سکنہ متورادشت کا لاش سے برآمد ہوا۔
۔۔۔وادی مشکے کے مختلف علاقوں پاکستانی فوج تنک ندی میں گھس کر تنک سے گذرنے والے ندی نالوں کے راستے بند کرکے آپریشن کیا،واضح رہے کہ تنک ندی مشکے کو پنجگور واشک اور کیلکور سے ملاتی ہے۔اور تنک ندی میں بیشمار خانہ بدوش رہتے ہیں۔
۔۔۔جھاؤ کے پہاڑے سلسلہ سورگر میں چار روز سے فوجی آپریشن جاری ہے۔سورگر میں گزشتہ چار دنوں سے فوجی آپریشن جاری ہے جس میں ایک درجن سے زاہد افراد کو فورسز نے لاپتہ کردیا ہے۔فضائی بمباری سے سینکڑوں کی تعداد میں مال مویشیوں کے ہلاک ہونے کے ساتھ ایک درجن سے زائد افراد کو بھی لاپتہ کیا گیا ہے،۔
اب تک فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والے 13 افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔جمل ولد قادربخش،فیض محمد ولد قادربخش،علی بخش ولد قادربخش،غوث بخش ولد مراد،رمضان ولد مراد،ارشد ولد مراد،ثناء اللہ ولد محمدحسین،منظور احمد ولد محمدحسین،یار محمدولد نورا،محمد عارف ولد اللہ بخش،عبدالواحد ولد رسول بخش،چھٹہ ولد اللہ یار،رسول بخش ولد نورا،۔
5 مارچ
۔۔۔بلیدہ میں فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مارکر ایک شخص کو حراست میں لیکر جبری طور پرلاپتہ کردیا ہے۔
گذشتہ روزصبح چار بجے کے قریب بلوچستان کے علاقے بلیدہ مہناز میں پاکستانی فوج نے پیر بخش نامی شخص کے گھر پر چھاپہ مار کرخواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر پیر بخش اور اس کے بھانجے عبید ولدصدیق کو حراست میں لیکر اپنے ساتھ لے گئے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ بعد ازاں فورسز نے پیر بخش نامی شخص کو رہا کردیا جبکہ عبید ابھی تک جبری طور پر لاپتہ ہے۔
6 مارچ
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں جمعہ کی دوپہر کو فائرنگ کے واقعے میں ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔
ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت ندیم ولد جمعہ کے نام سے ہوئی ہے اور زخمی شخص کی شناخت احسان ولد اکبر کے نام سے ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق زمین کے تنازع پر واقعہ پیش آیا ہے۔
۔۔۔ ضلع چاغی کے شہر نوکنڈی سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ ہونے والا میر گل محمد ولد نیک محمد کوئٹہ ہدہ جیل سے منظر عام پر آگئے۔گل محمد تین سال قبل گرفتاری بعد لاپتہ ہوگئے تھے جبکہ 19 جولائی 2019 کو تربت سے لاپتہ پیر جان ولد بشیر احمد بھی آج بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔ ضلع نوشکی سے 7 سال قبل سے لاپتہ عبداللہ گزشتہ روز بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔مشکے سولیر اور ٹوبہ کے سنگم پر آرمی نے چوکی قائم کردی،۔پانچ دن قبل مشکے سے فوج تنک ندی آپریشن کرتے ہوئے ٹوبہ ،سولیر پہنچی تھی۔اس کے بعد سولیر اور ٹوبہ کے سنگم پر واقعہ پہاڑ پر مورچہ قائم کردیا ہے۔ اس دوران تنک زیارت سے علی محمد کے ایک بیٹے جوکہ چرواہاتھے کو گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیاہے۔واضح ہو اس سے قبل بھی دسیوں بار فوج یہاں آکر عارضی کیمپ ایک ہفتہ کیلے لگانے بعد واپس ہوتے رہے ہیں۔مگر اس دفعہ آثار بتا رہے ہیں کہ یہاں مستقل کیمپ قائم کرکے بیٹھ جائیں گے۔
۔۔۔ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ کے علاقے کوچگ میں اسکول پاکستانی فورسز کی چیک پوسٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
بلیدہ کوچگ باہوٹ بازارِ کے مڈل اسکول کو پاکستانی فورسز نے چیک پوسٹ میں تبدیل کردیا، یاد رہے گزشتہ دو دن پہلے پاکستانی فورسز نے اپنے سامان، وغیرہ تمام چیزوں کو سکول میں لے آیا تھا، آج باقاعدہ اسکول کو چیک پوسٹ میں تبدیل کردیا،صبح کے وقت جب بچے اسکول گئے تو انہیں واپس گھر جانے کا کہا گیا۔ اور بچوں سے کہا کہ آئندہ اسکول مت آنا، بلوچستان میں ایسے سینکڑوں اسکول ہیں جو باقاعدہ چیک پوسٹوں میں تبدیل کیے جا چکے ہیں۔
7 مارچ
۔۔۔گوادر کے تحصیل جیونی کے نواحی گاؤں پانوان میں پاکستانی فوج نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمسن لڑکے سمیت نصف سے زائد افراد کو تشدد کے بعد جبری لاپتہ کردیا ہے۔تمام افراد آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔ ان میں ایاز ولد حیات، میران ولد ھمل،ممتاز ولد ولی محمد اور بیبگر ولد اسحاق شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا تنویر ولد الہی بخش نامی نوجوان کو بھی پاکستانی فورسز نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات گھر سے اٹھایا اور شدید تشدد کے بعد آج صبح چھوڑ دیا جن کی حالت تشدد کی وجہ سے خراب ہوچکی ہے اور انہیں علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
پانوان گوادر کے تحصیل جیونی سے متصل ایک ساحلی گاؤں ہے جو بلوچستان کے بیشتر مضافاتی علاقوں کی طرح مسلسل پاکستانی فوج کے زیرعتاب ہے اس سے پہلے بھی گاؤں سے 33 سالہ صادق ولد اسماعیل کو 5 مئی 2020 کو تیسری مرتبہ جبری لاپتہ کیا گیا ہے جو تاحال پاکستانی فورسز کے ٹارچر سیل میں بند ہیں آخری مرتبہ ان کے بارے میں ٹارچر سیل سے رہا ہونے والے ایک شخص نے یہ خبر دی تھی کہ جیل میں وہ شدید بیمار ہیں۔
8 مارچ
۔۔۔مستونگ میں فورسز نے 5 زیرِ حراست افراد کو قتل کرددیا
کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے مستونگ میں جعلی مقابلے میں پانچ افراد کو قتل کردیا۔
قتل کیے جانیوالے تمام پانچوں افراد پہلے ہی سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے تحویل میں تھے جنہیں گذشتہ روز بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم کے ارکان قرار دیکر جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔
۔۔۔رواں سال 18 جنوری کو دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس پر پاکستانی فورسز ایگل اسکواڈ نے دوران چیکنگ دو افراد سمیع اللہ پرکانی اور جمیل احمد پرکانی کو گرفتار کرنے کے بعد سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا تھا۔ ایگل فورس نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ افراد سے دستی بم برآمد کیے گئے۔
قتل کیے جانے والے دیگر تین افراد عارف مری اس کا کزن یوسف مری شامل جن کا بنیادی تعلق بولان کے علاقے جھالڑی اور تیسرا شخص شاہ نظر ہیں۔ مذکورہ افراد کو بھی دوران آپریشن حراست میں لیا گیا تھا جس کے بعد ان کے حوالے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی تھی۔
۔۔۔ضلع نصیر آباد میں پولیس تھانہ نوتال کو موضع کپرانی سے ایک نامعلوم شخص کی لاش ملی ہے۔ مذکورہ شخص کی لاش سول ہسپتال ڈیرہ مراد جمالی میں شناخت کیلئے منتقل کردیا گیا ہے۔
تاہم ہلاکت کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ کے علاقے الندور میں عالمی یوم خواتین کی موقع پر منشیات کے خلاف ریلی نکالی گئی۔
9 مارچ
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان: فورسز ہاتھوں پانچ بلوچ حراست بعد لاپتہ
کوئٹہ سے ایک طالب علم، نوشکی سے 3 نوجوان جبکہ سبی سے ایک شخص پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ
پنجاب کے شہر ملتان میں زیر تعلیم نوجوان کو پاکستانی فورسز نے کوئٹہ سے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔
تربت کا رہائشی نوجوان نوید ولد قدیر امتحانات دیکر کوئٹہ پہنچا تھا جہاں اس کو پاکستانی فورسز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ذرائع کے مطابق نوید ملتان میں کیمیکل انجینئر کا طالب علم تھا، امتحانات دینے کے بعد کوئٹہ سے تربت کی جانب سفر کررہا تھا کہ انہیں لاپتہ کیا گیا۔
بلوچستان کے ضلع نوشکی سے پاکستانی فورسز نے تین نوجوانوں کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔تینوں نوجوانوں کو مختلف علاقوں سے لاپتہ کیا گیا ہے۔ لاپتہ نوجوانوں میں ریاض بادینی، چنگیز بلوچ اور اعجاز بلوچ شامل ہیں۔ ریاض بادینی اور چنگیز بلوچ کو تین روز قبل نوشکی بازار کے قریب سے پاکستانی فورسز، فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔ لاپتہ چنگیز بلوچ ایم سی بی بینک میں گن مین تھا۔تیسرے نوجوان اعجاز بلوچ کو بھی گذشتہ روز حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ لاپتہ اعجاز بلوچ جورکین نوشکی کا رہائشی ہے جبکہ وہ بی ایم سی کا طالب علم ہے۔
پاکستانی فورسز نے سبی کے علاقے بادرا سے زرین خان مرگیانی ولد عزیزو کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیاان کو گذشتہ روز پاکستانی فورسز کے حکام نے حاضری کے لئے کیمپ بلاکر حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
10 مارچ
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کوہلو کے تحصیل کاہان میں گذشتہ روز سے پاکستان فورسز کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کاہان کے علاقوں نیلی، سورو، پڑہ، پڑ، کپڑی میں فوجی آپریشن کی جارہی ہے۔ فوجی آپریشن اور علاقوں میں فوج کی بھری نفری تعینات ہونے کے بعد مقامی آبادیوں کو آزادانہ نقل و حرکت میں دشواریوں کے سبب وہ نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔
11 مارچ
۔۔۔ تین افراد ڈھاڈر سے لاپتہ
جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کا تعلق ضلع کچھی کے علاقے ڈھاڈر سے ہے۔ جان بیگ رند اور سلطان رند کو دو روز قبل ڈھاڈر سے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ جبکہ ڈھاڈر ہی کے رہائشی غلام مصطفیٰ کو پانچ مارچ کو کوئٹہ سے حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا۔
۔۔۔ضلع گوادر سے 29 نومبر 2019 کو ضلع گوادر کے علاقے اورماڑہ سے جبری طور لاپتہ کیئے جانے والا نوجوان نور داد بلوچ ولد عرض محمد آج بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔
۔۔۔بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر سے دو افراد کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
حراست بعد لاپتہ ہونے والوں میں اکبر ولد سید اور چراگ ولد مراد بخش شامل ہیں۔ گذشتہ رات پاکستانی فورسز نے چھاپہ مارکر گھر میں موجود موٹر سائیکل سمیت دیگر قیمتی سامان کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے جبکہ گھر میں موجود ایک مہمان اکبر اور میزبان چراگ کو بھی حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے کلبر اور گردونواح میں گذشتہ روز سے پاکستانی فوج کی جانب سے فوجی آپریشن جاری ہے۔ پہاڑی علاقوں میں مختلف مقامات پر فورسز اہلکاروں نے آمدورفت کے راستوں کو بند کردی ہے۔
12 مارچ
۔۔۔پاکستانی فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والا نوجوان بازیاب،جسمانی حوالے انتہائی کمزور ہے،علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
وادی مشکے سے اطلاعات کے مطابق 22 دسمبر2018 کو پاکستانی فورسز ہاتھوں اغوا ہونے والا ریکو ولد اللہ یار سکنہ مشکے جیبری
پانچ مارچ2021 کو بازیاب ہوا ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق شدید تشد د کی وجہ سے انکی صحت گر چکی ہے اور ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں ہے، علاج کے لیے خاندان والوں نے اسے ہسپتال منتقل کر دیا ہے۔
14 مارچ
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ میں اتوار کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر رواں سال کے 8 مارچ کو ضلع مستونگ میں پانچ لاپتہ بلوچ نوجوانوں کے حراستی قتل کے خلاف ایک ریلی نکالی گئی۔ریلی میں شریک خواتین اور مردوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر شہر کے سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے جعلی پولیس مقابلے میں نوجوانوں کی قتل پر انصاف کا مطالبہ کیا۔
15 مارچ
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ضلع کوہلو کے علاقے کاہان میں پاکستانی فوج نے دوران آپریشن چھ خواتین اور بچوں کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے۔کاہان میں سْری شامیر کے علاقے میں پاکستانی فوج نے دوران آپریشن گھروں پر چھاپے مارے جہاں تین خواتین اور تین بچوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔خاران کے پہاڑی سلسلوں میں پاکستانی زمینی و فضائی فوج کا گزشتہ کئی دونوں سے آپریشن جاری، پہاڑی سلسلوں میں زمینی فوج کے ساتھ کمانڈوز بھی گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اْتارے جا رہے ہیں۔جبکہ علاقے مکینوں کے مال مویشیوں کی لوٹ مار جاری، خاران کے مختلف علاقوں میں عام آبادیوں کو فورسز نے سرچ آپریشن کے نام پہ یرغمال بنا کر لوگوں پہ تشدد کیاجارہا ہے،
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے علاقے مونڈی، کلانچی پاڑہ میں انتظامیہ کی جانب سے گھروں کی مسماری کے خلاف لوگوں کا احتجاجی مظاہرہ اور ڈی سی اور آفس کے سامنے دھرنا دیا جارہا ہے۔مظاہرین کے مطابق یہ ایک سوچی سمجھی سازش اور مقامی لوگوں کی گوادر بدری کا منصوبہ ہے۔مظاہرین نے کہا کہ ہمارے گھروں کو راتوں رات مسمار کیا گیا جب تک حکومت وقت ہماری گھروں کی چار دیواریوں کو دوبارہ تعمیر نہیں کرے گا یہ احتجاج جاری رہے گی۔مقامی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے ثقافت اور روایات کو پامال کرنے والے افسران کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔ذرائع کے مطابق یہ زمین سرکاری ریکارڈ میں سرکار نے اپنے نام پر کیا ہے تاہم یہ زمین سرکار کی ملکیت نہیں ہے۔
16 مارچ
۔۔۔ مند آرمی کیمپ سے تازہ فوجی دستے اپسی کہن کی جانب روانہ ہوئے ہیں، واضح رہے کہ مند میں پیر کے روز یعنی کل تک مکمل کرفیو نافذ تھا اور تمام داخلی و خارجی راستے بھی بند کر دئیے گئے تھے۔
۔۔۔کراچی میں سماجی کارکن ہانی گل بلوچ پر قاتلانہ حملہ
جبری لاپتہ محمد نسیم کی منگیتر کو 11 مارچ کے دن ٹول پلازہ اور گارڈن کے درمیانی سڑک پر گاڑی کے ذریعے دانستہ روڈ حادثہ کا شکار کرکے قتل کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ان کے چہرے پر رکشہ کا شیشہ گرنے سے چوٹیں آئیں تاہم وہ اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہی ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے تمپ میں کلبر کے گردونواح میں پاکستانی فوج کی جانب سے فوجی آپریشن جاری ہے، مختلف علاقے فورسز کے محاصرے میں ہیں۔ کلبر اور گومازی کے گرد نواح کے علاقوں ڈامبر، شاہاپ، جکینی، دیزوی، بانپیر، بومن، انجیر کہن، ٹالنڈر، چگردی، اپسی کہن، دیزیگ، کْنردان، چگردی، انجیرکھن اور دیگر علاقوں میں آج صبح پاکستانی فورسز نے پیش قدمی کی۔
۔۔۔پروم کے رہنے والے ایک اور نوجوان ’محمود ہاشم‘کو بھی پاکستانی فوج نے جبری لاپتہ کردیا۔
محمود ولد ہاشم پروم کے رہنے والے ہیں اور سرحد پر گاڑی کے ذریعے ایرانی ایندھن کی حمالی کرتے ہیں۔ انھیں کام کے دوران دیگر افراد کے ساتھ فوجی کیمپ پر روکا گیا بعد میں دیگر افراد رہا کردیے گئے لیکن ’محمود ہاشم‘کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔
۔۔ہرنائی میں کوئلہ کان میں دھماکے سے 7 کان کن جاں بحق
۔۔۔بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہکے نیو سریاب میں ایک گھر سے تین بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں گلہ کاٹ کر ذبح کیا گیا تھا۔
بق نیوسریاب کی حدود میں غلام رسول پھاٹک کے مقام پر نامعلوم افراد نے محکمہ تعلیم کے جونیئر کلرک عطااللہ کے گھر میں گھس کر تیز دھار آلے کے وار کرکے تین کمسن بچوں حسنین، زین اور اقصیٰ کو قتل کردیا جب کہ کشمالہ نامی بچی کو شدید زخمی کردیا۔
18 مارچ
۔۔۔ضلع آواران کے علاقے جھاؤ میں پاکستانی فوج نے دوران آپریشن درجن سے زائد افراد کو حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کر دیا ہے۔
جھاؤ چھبی میں فورسز نے دوران آپریشن گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ عورتوں کو بھی تشدد کانشانہ بنایا اور موبائل چین لیے گئے۔
اطلاعات کے مطابق ایک درجن سے زاہد افراد کو گرفتار کرتے ہوئے انکوآرمی کیمپ کوہڑو منتقل کردیا گیا ہے،فورسز کی زیر حراست افراد کی شناخت انضمام ولد رحیم بخش ، ظریف ولد یعقوب ،امام بخش ولد قادربخش، امتیاز ولد امام بخش، سلام ولد امام بخش، درویش ولد عبداللہ، رفیق ولد درویش، زباد محمد بخش کو بیٹوں سمیت زاکر ولد محمد بخش اور حکیم سے ہوئے۔
۔۔۔جھاو چھبی سے ایک شخص لاپتہ جس کی شناخت ناصر ولد غلام محمد سے ھوا ہے۔
۔۔ گومازی میں پاکستانی فوج نے دھاوا بول کر شنکن بازار سے امین اللہ ولد مولابخش کو اغوا
کرنے کے ساتھ گومازی کے بازار میں بھی کئی گھروں میں دوران آپریشن فورسز نے گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور تمام افراد کے موبائل چھین کر بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
20 مارچ
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ضلع خاران کے علاقے لجّے میں پاکستانی فوج کی بڑی تعداد آج صبح پہنچ گئی۔
پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے لجّے بازار کو زبردستی بند کرادیا۔ جبکہ اس موقع پر بازار میں مختلف مقامات پر ناکہ بندی کی گئی ہے۔
۔۔۔ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کے رہائشی ’میرجان ولد کمالان‘ کو پاکستانی فوج نے 15 مارچ 2021 کو گرفتاری کے بعد اپنے ٹارچر سیل میں رکھا اور 19 مارچ کی شام 3 بجے رہا کیا لیکن گرفتاری کے دو گھنٹے بعد شام 5 بجے بھاری نفری اور ڈیتھ اسکواڈ کے ہمراہ ان کے گھر پر دوبارہ چھاپہ مارا اور گیا۔اس چھاپے میں فوجی اہلکاروں نے انھیں ان کی احوال پرسی کے لیے آنے والے دیگر افراد سمیت گرفتار کرلیا۔
میرجان ولد کمالان مسلسل پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگی اور ٹارچر کا شکار ہیں یہ چوتھی مرتبہ ہے کہ انھیں جبری لاپتہ کیا جارہا ہے۔پہلی دفعہ گرفتاری کے بعد پاکستانی فوج نے انھیں ایک سال تک جبری لاپتہ کیا ٹارچر سیل سے رہائی کے بعد وہ دوسری مرتبہ اپنے بھائی ’سالم‘ کے ساتھ جبری لاپتہ کیے گئے اور چوتھے روز ان کو رہا کردیا گیا۔ تیسری مرتبہ 15 مارچ کو اٹھائے گئے اور 19 مارچ کو رہا کے گئے لیکن رہائی کے دو گھنٹے بعد انھیں دوبارہ جبری گمشدہ کیا گیا۔
ضلع کیچ کے علاقے تمپ کے گاؤں گومازی ک میں 17 اور 18 مارچ کی درمیانی رات فورسز نے ’امین اللہ ولد مولابخش‘کو ان کے گھر سے جبری لاپتہ کیا گیا۔کیچ کی تحصیل تمپ اور مند کے علاقے بھی رواں ہفتے جبری گمشدگی کی اس تازہ لہر کا شکار ہوئے اور ان علاقوں سے بڑے تعداد میں لوگوں کو جبری لاپتہ کیا گیا۔
مند بلوچ آباد کے رہائشی نوجوان ’انیس ولد گھرام‘ پھر سے فورسز ہاتھوں لاپتہ۔ انھیں پہلی مرتبہ 7 مئی 2020 کو پاکستانی فوج نے جبری لاپتہ کیا اور 6 مہینے بعد ان کی بازیابی عمل میں آئی۔
پہلی مرتبہ جبری گمشدگی کے دوران انھیں اگست 2020 کے آخری ہفتے میں تربت پولیس کی تحویل میں دیا گیا جہاں ان کے اہل خانہ نے ان سے ملاقات کی اور تصویر کھنچوئی مگر پولیس نے انھیں مزید تفشیش کے لیے تربت تھانے میں رکھا جہاں سے انھیں دوبارہ پاکستانی فوج نے جبری لاپتہ کردیا اور9 اکتوبر 2020 کی شام انھیں رہا کردیا گیا اور وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔ اور ایک بار پھر لاپتہ کر دیا گیا۔
انیس گھرام کے ایک بھائی ’جاوید ولد گھرام‘ کو جبری گمشدگی کے دوران تشدد کرکے نیم مردہ حالت میں رہا کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے اور شہید ہوگئے۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ضلع کیچ سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے تفصیلات کے مطابق پنجگور کے رہائشی شخص کی لاش تربت سے برآمد ہوئی ہے لاش کو شناخت کے لئے سول اسپتال تربت منتقل کردیا گیا۔متاثرہ شخص کی جیب سے برآمد ہونے والی رسید کے مطابق، اس کا نام ارم شاہ ہے، تاہم مزکورہ شخص کے قتل کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ہے۔
۔۔۔ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کوئٹہ ہرنائی شاہراہ پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے افراد کی شناخت سخی داد اور خان محمد کے ناموں سے ہوئے ہیں۔زخمیوں نے پولیس کو بتایا کہ ہم رات کے وقت کوئلہ کان میں کانکنی کرکے واپس اپنے گھر آرہے تھے کہ اوسی شیلہ کے قریب مسلح نقاب پوش افراد نے ہمیں روک کر ہمارے پاس موجود سامان حوالے کرنے کا کہا تو اس دوران ہم نے ایک مسلح شخص کو قابو کرلیا تو انکے دیگر ساتھیوں نے اپنے ساتھی کو چھڑانے کیلئے ہم پر فائرنگ کرکے زخمی کرنے کے بعد فرار ہوگئے۔
21 مارچ
۔۔۔ گوادر کی تحصیل جیمڑی کے گاؤں پانوان کے رہائشی ’صادق ولد اسماعیل‘دس مہینے کی جبری گمشدگی کے بعد گذشتہ رات تین بجے بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔صادق کو 5 مئی 2020 کو تیسری مرتبہ جبری لاپتہ کیا گیا تھا انھیں رمضان کے مہینے میں مسجد میں افطار کرتے وقت پاکستانی فوجی اہلکاروں نے گرفتار کیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔
اسی طرح پانوان سے 3 مارچ 2021 کو چار نوجوان کو جبری گمشدہ کیا تھا جو تاحال پاکستانی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ ہیں۔ان میں ایاز ولد حیات، میران ولد ھمل،ممتاز ولد ولی محمد اور بیبگر ولد اسحاق شامل ہیں۔
۔۔۔پاکستانی فوج اور ان سے منسلک خفیہ اداروں نے دو افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔
احسان ولد پیربخش مری کو ہفتے (20 مارچ 2021) کے دن چار سے پانچ بجے کے درمیان شاہ ٹاؤن بن قاسم ملیر کراچی سے فورسز نے حراست بعد لاپتہ کردیا ہے۔
اسی طر ح فورسز نے ربنواز ولد سورت خان مہمدانی مری،نیوکاھان مری کیمپ شال کے رہائشی کو 15 مارچ 2021 کو فورسز نے لاپتہ کیا۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور کے رہائشی نوجوان کو دوسری مرتبہ لاپتہ کردیا گیا۔ پنجگور سے پاکستانی فورسز نے گذشتہ رات وسیم ولد محمد عیسیٰ کو ان کے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر متنقل کردیا۔وسیم کو اس سے قبل 2016 میں جبری طور لاپتہ کیا گیا تھا جنہیں ایک سال بعد رہا گیا۔
25 مارچ
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ سے پاکستانی فورسز نے تربت یونیورسٹی کے طالب علم کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستانی فورسز نے کیچ کے مرکزی شہر تربت میں 19 مارچ کو کولوائی بازار میں چھاپہ مارکر تربت یونیورسٹی کے طالب علم نیک بخت کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع خاران سے پاکستانی فورسز نے ایک شخص کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔گذشتہ رات 3 بجے کے قریب پاکستانی فورسز نے خاران شہر میں کبدانی محلہ نزد ٹینکی والا قبرستان ایریا میں چھاپہ مارکر عمران کبدانی ولد کریم بخش کبدانی کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
خاران میں 19 مارچ فورسز کا آپریشن جاری ہے، بتایا جارہا ہے فورسز نے دوران آپریشن اب تک کئی افراد کو لاپتہ کردیا ہے جن میں ایک شخص قدرت اللہ ولد محمد وارث کی لاپتہ ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور سے پاکستانی فوج نے دو افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منقتل کردیا ہے۔ لاپتہ کیے جانیوالے دونوں افراد تیل کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ گذشتہ رات عشاء کے وقت پنجگور کے سرحدی علاقے چیدگی سے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے وحید ولد کریم داد اور بلال ولد جان سکنہ عیسیٰ پنجگور کے حراست میں لیا۔
26 مارچ
۔۔۔وادی مشکے پاکستانی فوجی کا آپریشن جاری ہے، 5 افراد حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کر دئیے گئے
ادی مشکے کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری ہے،آج بروز بدھ فورسز نے وادی مشکے کے علاقے خالد آباد میں آبادی پر دھاوا بول کرداد رحیم ولد مراد خان،بدل ولد کریم داد، رفیق ولد عظیم خان،صدام ولد جان محمد، نیک سال ولد شاہ مراد کو حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کر دیا ہے۔
دوران آپریشن فورسز نے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ گھروں میں لوٹ مار کی ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقہ اوتھل زیرپوائنٹ سے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کلاتک کا رہائشی لاپتہ ہوگیا۔ سیکورٹی فورسز نے طالب علم سید حاصل کو زیرپوائنٹ کے مقام سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کیاہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پاکستانی فوج نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو قتل کردیا۔ فائرنگ کا واقعہ پنجگور کے علاقے پروم میں ایف سی کی 137 ونگ کے چیک پوسٹ پر پیش آیا۔انتطامیہ کے مطابق ایف سی اہلکاروں کی جانب سے گاڑی کو رکنے کو کہا نہ رکنے کی صورت میں ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ کھول دی اور گاڑی ڈرائیور زخمی ہوگیا۔زخمی شخص کو ڈی ایچ کیو اسپتال پنجگور منتقل کردیا گیا جہاں وہ زخمی کی تاب نہ لاتے ہوئے جانبحق ہوگیا۔
واضح رہے اس سے قبل اسی مقام پر ایف سی اہکاروں نے 17 مارچ کو ایک تیل بردار گاڑی پر فائرنگ کھول دی تھی جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ظہیر نامی نوجوان جانبحق ہوا تھا۔
27 مارچ
۔۔کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ہفتے کے روز دوپہر کومظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
۔۔۔وادی مشکے میں دودن سے فوجی آپریشن جاری ہے،جبکہ آج بروز ہفتہ کیل کور کے مختلف علاقوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی ہے۔
کیل کور کے پہاڑی علاقوں میں آج تین گن شپ ہیلی کاپٹروں نے دوپہر کے وقت شیلنگ کی ہے اور اسکے بعد دس گاڑیوں پر مشتمل فوجی قافلہ بھی مذکورہ علاقوں کی جانب روانہ ہوئی ہے،تازہ اطلاعات کے مطابق آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔
جمعہ کے روز سے مشکے کے علاقہ پوہان،داربند،اسپت کوہ،جانی بند سمیت دوسرے پہاڑی ندی نالوں میں زمینی اور فضائی آپریشن جاری ہے۔ان علاقوں میں کل اور آج بھی جنگی ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی ہے۔ تاہم ان علاقوں میں اب تک فوج کی موجودگی کی وجہ سے نقصانات کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں دوسری جانب کل سے نیٹ ورک بھی جام رکھا گیا ہے۔عینی شاہدین نے ان پہاڑی علاقوں میں ہیلی کاپٹروں کو کمانڈوز بھی اتارتے دیکھا ہے۔
28 مارچ
۔۔۔ کوئٹہ سے پاکستانی فورسز نے خاران کے رہائشی نوجوان کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔ 23 مارچ کی رات کو پاکستانی فورسز نے کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں چھاپہ مارکر ایک شخص کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔حراست بعد لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت ضیاء جان کبدانی ولد خدارحم کبدانی سکنہ خاران کے نام سے ہوئی ہے۔
۔۔۔ کیلکور میں فوجی آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے،کیل کور کے علاقے ضلع پنجگور اور ضلع کیچ کے حصے ہیں،دونوں اضلاع میں کیل کور کے پہاڑی سلسلوں سمیت آبادیوں کو پاکستانی فوج نشانہ بنا رہی ہے۔کیل کور کے علاقوں ہیرونٹ، کرکی، بالی ریک، پلیمک، کلیڑی، سیتوک، بیدری، جک بن، تگنی، دنبی، شینزدان، جنچوپ اور حاجی آباد میں آپریشن کی گئی۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کوہلو کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج کی جانب سے آپریشن جاری ہے۔ فورسز نے کئی گھروں کو نذر آتش کردیا ہے۔ آج صبح سے کوہلو کے علاقے کوہ بن، سیاہ کوہ، دہریس، مخی اور کاٹ ویڑ کے علاقوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے آپریشن جاری ہے۔ فورسز کے آپریشن کے نتیجے میں جنتلی کے علاقے کوہ بن میں ایک درجن کے قریب محمدانی مریوں کے گھروں کو نظر آتش کیا گیا ہے۔ جبکہ دوران آپریشن فورسز بھیڑ بکریوں کو بھی اپنے ہمراہ لے جارہے ہیں۔
31 مارچ
۔۔۔۔پنجگورکے علاقے گچک اور گردونواح میں فوجی آپریشن جاری ہے جبکہ کیچ کے علاقے تمہ میں فورسز نے ایک نوجوان کو جبری طور پر لاپتہ کردیا۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پاکستانی فوج کی جانب سے آپریشن کی جارہی ہے۔ گچک و گردنواح کے علاقوں کو جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کردی گئی ہے۔کیلکور کے مختلف مقامات پر فورسز اہلکاروں نے کئی گھروں کو بھی نذر آتش کردیا ہے۔
ضلع کیچ کے تحصیل تمپ سے پاکستانی فورسز نے ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔ صبح دس بجے پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے تمپ کے علاقے سرنکن میں شاہ دوست نامی شخص کے گھر پر چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناکر ایک شخص کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔حراست بعد لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت علی حیدر ولد دلجان کے نام سے ہوئی ہے۔
یاد رہے مذکورہ نوجوان کو اس سے قبل بھی پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا اور کئی مہینوں تک لاپتہ ہونے کے بعد رہا ہوا تھا، آج ایک بار پھر اسے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا۔
٭٭٭
ماہنامہ سنگر اپریل شمارے کے لیے لنک پر کلک کریں
https://drive.google.com/file/d/1S3WkK6DzXEmenYe24rBQaqugg59QvMIW/view?usp=sharing