میرے ساتھ جو کچھ ہوا یہ ریاستی اداروں پر سوالیہ نشان ہے،لاپتہ سرمد سلطان بازیاب

0
224

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوان سرمد سلطان دو روز ‘لاپتا’ رہنے کے بعد ہفتے کو گھر پہنچ گئے۔

ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں سرمد سلطان نے بتایا کہ “میں سرمد سلطان آپ کی دعاو¿ں، آپ کی کوششوں کے بعد صحیح سلامت آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔”

سرمد سلطان نے مزید کہا کہ “میرے ساتھ، میرے چھوٹے بھائی اور میرے اہلِ خانہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس ریاست اور اس کے اداروں پر لگا ہوا سوالیہ نشان ہے۔ یہ ریاست کے اہم ستونوں پر لگا ہوا سوالیہ نشان ہے، اس سوالیہ نشان کا جواب کون دے گا؟ میں، آپ، ریاست یا کوئی اور سوچیں۔”

خیال رہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ناقد سمجھے جانے والے سرمد سلطان چند روز سے لاپتا تھے جس کے بعد ان کی بازیابی کے لیے سوشل میڈیا پر مختلف حلقوں کی جانب سے آواز اٹھائی جا رہی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سرمد سلطان کے لاپتا ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔

سرمد سلطان کے اکاو¿نٹ سے 30 مارچ کو ان کی اہلیہ نے ایک ٹوئٹ کی جس میں بتایا گیا کہ 30 مارچ کی شب سرمد سلطان کے گھر پر ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ان کے چھوٹے بھائی شدید زخمی ہو گئے، تاہم اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

ٹوئٹ میں سرمد کے بھائی سچل سلطان کی تصویر بھی لگائی گئی ہے جس میں ان کے سر پر پٹی بندھی ہوئی ہوئی ہے۔

ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ اہلِ خانہ کے شور مچانے پر حملہ آور یہ کہتے ہوئے فرار ہو گئے اگر سرمد اپنی تحریروں سے باز نہ آئے تو ان کی لاش بھی نہیں ملے گی۔

سرمد سلطان کی بازیابی کے بعد ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے ٹوئٹ کی کہ مجھے بعض سماجی کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا کہا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس واقعے کی معلومات حاصل کر رہی ہیں جب کہ سرمد کے بھائی کی جانب سے درج کرائی گئی رپورٹ کی کاپی بھی انہیں موصول ہو گئی ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ سرمد واپس گھر پہنچ گئے ہیں۔

سرمد سلطان کے ٹوئٹر پر 48ہزار سے زائد فالورز ہیں۔ ان کی ٹوئٹس میں تاریخ کے حوالے سے مختلف تحقیقاتی موضوعات کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ریاستی اداروں پر تنقید بھی ہوتی تھی۔

سرمد سلطان کے لاپتا ہونے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان میں ماضی میں بھی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے علاوہ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لاپتا ہونے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔

البتہ، حکومت کی جانب سے متعدد مواقع پر ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سماجی کارکن ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here