پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی سربراہ خواجہ آصف کو گرفتار کر لیا ہے۔
نیب نے خواجہ آصف کو اسلام آباد سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ مریم نواز کی صدارت میں پارٹی اجلاس سے رخصت ہورہے تھے۔
سابق وفاقی وزیر پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کے ریفرنس میں تحقیقات جاری ہیں۔
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی سربراہ کو ایسے وقت میں گرفتار کیا گیا ہے جب حزب اختلاف کا اتحاد حکومت مخالف تحریک چلائے ہوئے ہیں اور مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے پر مشاورت کررہی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل خواجہ آصف کو پوچھ گچھ کے لیے نیب لاہور میں طلب کیا جا چکا ہے۔
نیب کے ایک ترجمان نے کہا کہ خواجہ آصف کو ان کے معلوم ذرائع سے زائد آمدن ہونے کی الزام کے سلسلے میں پکڑا گیا ہے۔
نیب کے ایک ترجمان نے خواجہ آصف کی حراست کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب کے ادارے نے اس سے پہلے خواجہ آصف کو تفتیش کے لیے طلب کیا تھا لیکن وہ مطلوبہ شواہد پیش نہ کرسکے۔
نیب لاہور کے ترجمان کے مطابق خواجہ آصف کے پاس 2004 سے 2008 تک مشرق وسطی کے ایک ملک میں کام کرنے کا اجازت نامہ یا اقامہ تھا اور خواجہ آصف کے مطابق انہوں نے ایک قانونی مشیر کی حیثیت سے کام کر کے 136 ملین روپے کمائے تھے۔
خواجہ آصف کی حراست پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ان کی گرفتاری کو اغوا قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں نواز شریف سے سیاسی وفاداری تبدیل نہ کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
پارٹی رہنما کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کو پیش کش کی گئی تھی کہ اگر وہ نواز شریف کے بیانیے کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کے بدلے ان کے مقدمات تین ہفتوں میں ختم ہو جائیں گے۔
مریم نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ اس پیش کش کو رد کرنے کے چند روز بعد ہی خواجہ آصف کو اغواءکے انداز میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مریم نواز سے جب سوال کیا گیا کہ خواجہ آصف سے یہ بات کس نے کہی تو انہوں نے کہا کہ وہ نام خواجہ آصف کی امانت ہیں اور وہ ابھی اس بارے میں نہیں بتانا چاہتی ہیں۔
مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ نیب عمران خان کی آلہٰ کار بن کر بغیر کسی مقدمے کے لوگوں کو اٹھا رہا ہے اور یہ گرفتاریاں شکست کے خوف کو سامنے رکھ کر کی جارہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس قسم کے ہتھکنڈے موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
مریم نواز نے کہا کہ اس صورتحال میں عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ قوم کو انصاف دینا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رہنماو¿ں کی گرفتاری پر پی ڈی ایم کے اجلاس میں لائحہ عمل مرتب کریں گے جو صرف زبانی بیانات پر مبنی نہیں ہوگا۔
مریم نواز نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کے اکثر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفے پارٹی قیادت کو موصول ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کی گرفتاری سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کے گٹھ جوڑ کا انتہائی قابل مذمت واقعہ ہے۔
اپنے ویڈیو بیان میں ان کا کہنا تھا کہ نیب کے "اوچھے ہتھکنڈوں” سے اپوزیشن تحریک کو مزید تقویت ملے گی۔
نواز شریف نے کہا کہ سیاسی رہنماو¿ں کی گرفتاری جیسی بھونڈی حرکتوں سے حکومتی بوکھلاہٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن ان حرکتوں سے یہ اپنے انجام کو مزید قریب لا رہے ہیں۔
خواجہ آصف کی گرفتاری کے حوالے سے حکومتی رہنماوں کا کوئی فوری بیان ابھی سامنے نہیں آیا لیکن وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ حزب اختلاف کے خلاف بد عنوانی کے الزامات کی تفتیش جاری رکھیں گے تاکہ ملک میں کرپشن کے خاتمے میں مدد مل سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے خواجہ آصف کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی انتقام کی یہ روایت پاکستان کے استحکام کے خلاف ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی مسلم لیگی رہنماءخواجہ آصف کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور اسے نیب کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔
جے یو آئی کے ترجمان کے مطابق مسلم لیگی رہنما کی گرفتاری کے بعد مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے درمیان ٹیلی فون پر تبادلہ خیال بھی ہوا ہے۔