بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل دشت کا دور افتادہ علاقہ کھڈان فوجی محاصرے میں ہے اور آپریشن ایک ہفتے سے زائد عرصے سے جاری ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پورے علاقے پر سیکورٹی فورسز کا سختی سے کنٹرول ہے اور لوگ یرغمال کی زندگی گزار رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے (LEAs) گھر گھر چھاپے مار رہے ہیں، آگ لگا رہے ہیں اور لوگوں کو خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں کو زبردستی غائب کر رہے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے سے کئی بلوچ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا چکا ہے۔ کچھ کیسز درج کیے گئے ہیں جب کہ بہت سے خوف، ہراساں کیے جانے اور مواصلاتی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کسی کا دھیان نہیں جاتے۔ ان میں شامل ہیں:
طلال عمر ولد محمد عمر، ایف ایس سی کا طالب علم، 10 نومبر کو لاپتہ کیا گیا۔
سلمان ولد لیاقت اور عامر ولد محمد ابراہیم دونوں طالب علم ہیں، 10 اور 11 نومبر کو لاپتہ کئے گئے۔
حبیب ولد مجیب، میٹرک کا طالب علم 19 نومبر کو لاپتہ کیاگیا۔
حکیم بلوچ، ایک مزدور 10 نومبر کو لاپتہ کیا گیا۔
مزید برآں، مقامی بلوچ عوام پر فوجی آپریشنز کے خوف اور نفسیاتی اثرات کی کوئی مثال نہیں ملتی اور اس نے ان کی زندگی کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ نسل کشی کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی دشت کے علاقے اور پورے بلوچستان میں جاری استعماری تشدد کی مذمت کرتی ہے۔ عالمی برادری نوٹس لے اور ریاست کو بلوچوں کی نسل کشی سے باز رکھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بلوچوں کے بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کو اجاگر کرنا چاہیے۔ بلوچ قوم کو اپنی مزاحمت جاری رکھنی چاہیے اور اس فوجی آپریشن کے خلاف متحد ہونا چاہیے جس سے ہمارے قومی وجود کو خطرہ ہے۔