بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزراور سرگرم سیاسی و انسانی حقوق کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ نے 13 نومبر یوم شہدائے بلوچ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ 13 نومبر کے موقع پر قومی شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوں۔ آج ان قومی ہیروز کا دن ہے جنہوں نے بلوچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی جانیں قربان کیں آج ہمارا معاشرہ ان شہداء کے خون سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہم اپنے لیے ایک خوشگوار اور زندہ معاشرہ بنانا چاہتے ہیں اور بلوچ ایک ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اور اپنے حلقوں سے بہت سی چیزوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں ان جوانوں کی قربانیوں اور خون کا احساس ہے تو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف اپنی طاقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی تمام طاقت ”بلوچوں کے دشمن“ کے خلاف ظرف کرنی چاہیے، اپنی ضد اور انا کو قربان کر دینا چاہیے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہاکہ بلوچ قومی شہداء نے خوشحال مستقبل کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں ایک خوشحال بلوچ معاشرہ مجھ سمیت ہر بلوچ کی خواہش ہے۔ مزاحمت، جدوجہد، ادب، تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، ہر وہ شعبہ جو قوم اور معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت بلوچ سماج کو جنگ کا سامنا ہے، بلوچ نوجوان اپنے شہداء کے خون اور قربانیوں کو اپنے سامنے رکھیں اور سوچیں کہ کیا بلوچوں کی جدوجہد اور مستقبل کے لیے ہمارا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ پھر ہمیں ان کے بارے میں بہت سوچنے اور اپنی جانیں قربان کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف ہمدردی کی بنیاد پر جدوجہد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہمارے معاشرے کے ہر نوجوان کو سوچنا چاہیے کہ وہ بلوچ اور بلوچستان کے لیے کہاں اور کس شعبے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، کوئی اچھا استاد ہو سکتا ہے، کوئی سائنسدان ہو سکتا ہے۔ کوئی اچھا صحافی ہو سکتا ہے، کوئی اچھا ماہرِ لسانیات ہو سکتا ہے، کوئی جدید ٹیکنالوجی کا ماہر ہو سکتا ہے، وقت آنے پر بلوچ سماج اور بلوچ قومی جدوجہد سامنے آئے گی۔ افکار قومی اور اجتماعی ہوں گے کیونکہ اگر ہم یہ سب کچھ اپنے ذاتی فائدے کے لیے کریں گے تو ان سے قوم اور معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
آخر میں انہوں نے کہاکہ میری رائے میں بلوچ قومی شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے منتخب کردہ راستے پر چلیں اور قومی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔
جبکہ سمی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ آج کا دن بلوچستان کے ان عظیم راجی شہدا کے نام ہے جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی، تمام آسائش اور اپنے پیاروں کو پس پشت ڈال کر ایک قومی اور اجتماعی فکر، نظریے اور فلسفے اور انسانی برابری پر قربان ہوئے انہوں نے جبر، طاقت، اور تسلط کے خلاف مزاحمت کی راہ اپناتے ہوئے خود کو تاریخ کے مزاحمتی کرداروں کی صف میں ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔
انہوںنے کہا کہ شہداء ہمارے قومی اثاثہ ہیں، اور ہمیں نہ صرف ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے بلکہ ان کے فلسفہ قربانی کو تقویت دے کر قومی اجتماعیت کو مضبوط بنانا چاہیے۔ اپنی قوم اور اپنی سرزمین پر ہونے والے ہر طرح کے ظلم زیادتی و جبر اور بربریت کے خلاف منظم ہوکر یکجا ہونا ہماری ذمہ داری اور بلوچ شہداء کی خواہش ہے۔