بلوچستان میں غیر اعلانیہ مارشل لانافذ ہے، ایچ آر سی پی زیر اہتمام تقریب

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(ایچ آر سی پی) کے زیر اہتمام جمعے کے روز کوئٹہ پریس کلب میں ”بلوچستان میں پر امن اجتماع کی آزادی“ کے نام سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں،طلبا تنظیموں سمیت مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے نمائندوںاور بی وائی سی کے آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شریک تھے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اس وقت غیر اعلانیہ مارشل لانافذ ہے اور حقوق انسانی کی پامالی ہورہی ہے ۔

مذاکرے کے شرکا میں سے زیادہ تر کی رائے یہ تھی کہ آئین میں پر امن اجتماع کی آزادی کے حق کے علاوہ شہریوں کے جو دیگر بنیادی حقوق ہیں ان پر بلوچستان میں قدغنیںہیں اور عملًا بلوچستان میں غیر اعلانیہ مارشل لا ہے۔

ایچ آر سی پی کے وائس چیئرمین کاشف پانیزئی کا کہنا تھا کہ جب اہم ریاستی اداروں کے سربراہ منتخب ہوتے یا مقرر کیئے جاتے ہیں تو وہ آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں لیکن جب ان سے اسی آئین پر عملدرآمدکا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے مطالبہ کرنے والوں پر مختلف الزامات لگاتے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ جتنے بھی بنیادی انسانی حقوق ہیں وہ بلوچستان میں معطل ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے پر امن اجتماع کو روکنے کیلئے پورے گوادر کو سیل کرکے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنادیا گیا،انھوں نے کہا کہ بلوچ راجی مچی کے نام سے ان کا اجتماع زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے تک منعقد ہونا تھا لیکن اس کو روکنے کیلئے پوری ریاستی مشینری کو لگادی گئی انکا کہنا تھا کہ ہم پر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیںلیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست جمہوری حوالے سے کہاں کھڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی میدان ایک پارٹی ، یونین کا نہیں بلکہ پورے قوم کا ہوتا ہے،اسکی واضح مثال بلوچ قومی تحریک ہے، جب نیپ بنی تھی یا اس سے پہلے یہ پشنگوئی کی تھی جس طرز حکومت سے یہ ریاست چل رہی ہے یہ ریاست چل نہیں سکتی۔ اس وقت انہوں نے صرف بلوچ کی بات نہیں کی تھی بلکہ اس ریاست میں بسنے والے ہر شخص کی بات کی تھی۔ آج یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بلوچ اس وقت صحیح تھے اور آج بھی صحیح ہیں۔ جو دنگے فساد بلوچستان، سندھ یا خیبر پختونخوا میں کئے وہ آج پنجاب تک پہنچ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا ہم بلوچستان سمیت ہر مظلوم تحریک کی حمایت کرتے ہیں ہم یہ فرق نہیں کرنے ہیں کہ یہ میرا تحریک ہے، یہ ہزارہ ، پشتون تحریک یا مزدور تحریک ہمیں سب کو ملکر جدوجہد کرنا ہوگا آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہ تباہ ہوچکا ہے یہاں ہر مظلوم قوم سمیت عام شخص کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ریاستیں اس لئے بنائی گئی ہیں کہ وہ شہریوں کو تحفظ دے سکیں، اگر ریاستوں سے عوام کا تعلق ختم کیا جائے تو کچھ نہیں بچے گا، عوام ہی ریاست چلاتے ہیں طاقت عوام کی ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو عوام آج دبی ہوئی ہے اسے نہیں معلوم کا طاقت وہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں ہر طبقہ جبر کا شکار ہے ، چاہے وہ قومی تحریک سے جڑا ہو یا نہیں اسے دبایا جارہا ہے لیکن یہ بات کوئی نہیں کرے گا کیونکہ سب ریاست کے کنڑول میں ہیں، یہ میڈیا بھی ریاست کے کنڑول میں ہے۔ عوامی تحریکوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سمجھوتے نہیں کریں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس ریاست کے لئے اس لیے درد سر بن چکی ہے کہ ہم نے اپنے سیاسی اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی اور آگے بھی نہیں کریں گے۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہم نے ریاست کے ہر جبر کو دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ ریاستی جبر نے ایک احتجاج کو تحریک بنا دیا ہے۔ بلوچستان کو ایک خاص قانون کے تحت چلایا جارہا ہے، کس طرح بلوچستان کو بند کیا گیا، کس طرح گوادر شہر کو 27 جولائی سے دس اگست تک محاصرے میں رکھ کر سیل کیا گیا۔ ہمیں بلوچ، پشتون، ہزارہ ہر مظلوم کے اقوام کے درمیان مزید یکجہتی کی ضرورت ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی جمہوری سیاست اور آئینی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے لیکن ریاست سے سوال ہے کہ وہ کب جمہوری بنے گی یا وہ ہمیں بتائیں کہ آئین کی کونسی شق ہے کہ بلوچستان میں جس پر عملدرآمد ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر میں تشدد کا راستہ اپنایا، لوگوں کو مارا اور ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی ان کی کوشش ہے کہ ہم تشدد کا راستہ اپنائیں آج، بھی ہمارے ساتھیوں اور ہمدردوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جارہا ہے۔ ہم سب کو جدوجہد کرنا ہوگی آج بلوچستان میں مزاحمت ہورہی ہے اور اسے عوام لیڈ کررہے ہیں۔ طاقت ریاست کے پاس نہیں عوام کے پاس ہوتی ہے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما علی احمد لانگو نے کہا کہ حکمران دوسروں پر پراکسی ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے حکمران ہی پراکسی بناتے رہے ہیں،اگر حکمران قوموں اور عوام کی حق حاکمیت کو تسلیم نہیں کریں گے تو لوگ دوسرے راستے تلاش کریں گے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما غلام نبی مری نے کہا کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے اور یہاں حزب اختلاف کی جماعتوں کو اجتماع کی آزادی حاصل نہیں ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے کہا کہ ان کا قافلہ پرامن طور پر گوادر بلوچ قومی اجتماع میں شرکت کے لیے جارہا تھا لیکن مستونگ میں لوگوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں جس میں ہمارے 14افراد زخمی ہوگئے ۔

مذاکرے سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی،طلبا تنظیموں اورحقوق انسانی کے کارکنوں نے اظہار خیال کیامذاکرے کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ آئین میں شہریوں کو جو بنیادی حقوق حاصل ہیں ان کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ اپنے اظہار رائے کا اظہار کر سکیں۔

Share This Article
Leave a Comment