ممتاز مصنفہ اروندھتی رائے پردہشت گردی کا مقدمہ چلانے کی منظوری

0
26

بھارت کے دارلحکومت دہلی کے لیفٹننٹ گورنر نے بھارت سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالمی شہرت یافتہ مصنفہ اور انسانی حقوق کی کارکن اروندھتی رائے اور سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کے خلاف سخت گیر انسدادِ دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی ہے۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اکتوبر 2010 میں نئی دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک انتہائی اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔

اروندھتی رائے عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ہیں اور انہیں معروف ادبی انعام بکر پرائز بھی مل چکا ہے۔ وہ انسانی حقوق کی کارکن بھی ہیں اور بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی سخت ناقد تصور ہوتی ہیں۔

نئی دہلی میں لفٹننٹ گورنر ونائے کمار سکسینہ کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اروندھتی رائے اور پروفیسر شوکت حسین پر مقدمہ چلانے کے سلسلے میں یو اے پی اے کی دفعہ 45(1) کا اطلاق ہو گا۔

اس سے پہلے لیفٹننٹ گورنر نے اکتوبر 2023 میں ان دونوں شخصیات کے خلاف تعزیراتِ ہند کی نفرت انگیزی سے متعلق دفعات کے تحت عدالتی کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔

منافرت پھیلانے کی دفعات کے تحت کسی کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے حکومت کی اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔

یو اے پی اے کہ دفعہ (1)45 کا تعلق غیر قانونی سرگرمیوں، دہشت گردانہ کارروائیوں اور دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے سے متعلق ہے۔ اس کے تحت کسی بھی عدالتی کارروائی سے قبل وفاقی یا صوبائی اتھارٹی کی اجازت لینے کی شرط رکھی گئی ہے۔

راج نواس کے عہدے دار نے کہا ہے کہ اکتوبر 2010 میں منعقدہ متنازع کانفرنس میں جن شرکاء نے تقریریں کی تھیں وہ کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے کے پروپیگنڈے کا حصہ تھے۔

ان کے بقول اس سلسلے میں ایک کشمیری پنڈت سشیل پنڈت کی شکایت پر دِلیّ پولیس نے ایک عدالتی حکم کے بعد بھارت کے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 196 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔

سشیل پنڈت نے 28 اکتوبر 2010 کو پولیس میں درج کرائی گئی اپنی شکایت میں کہا تھا کہ سیاسی قیدیوں کی رہائی سے متعلق ایک کمیٹی کی منعقدہ کانفرنس میں کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے پر تبادلۂ خیال ہوا تھا۔

انہوں نے الزام لگایا تھا کہ 21 اکتوبر 2010کو آزادی واحد راستہ ہے کے موضوع پر منعقدہ اس کانفرنس کے دوراں اروندھتی رائے، پروفیسر شیخ شوکت، سرکردہ کشمیری آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی اور دہلی یونیورسٹی کے ایک سابق استاد پروفیسر سید عبدالرحمٰن گیلانی نے اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں۔

مدعی نے الزام عائد کیا تھا کہ کانفرنس کے مقررین کا کہنا تھا کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھا اور بھارت کی مسلح افواج نے زبردستی اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔

شکایت کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی جانی چاہیے۔

شکایت کنندہ نے عدالت کے سامنے ان تقریرروں کی ریکارڈنگ بھی پیش کی تھی۔

شکایت میں نامزد کیے گئے سید گیلانی اور پروفیسر سید عبدالرحمٰن گیلانی کا انتقال ہو چکا ہے۔

سشیل پنڈت کی شکایت پر عدالت نے 27 نومبر 2010 کو دِلّی پولیس کو اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

دِلّی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد معاملے کی تحقیقات کی تھیں۔ ملزموں پر الزامات ثابت ہونے کی صورت میں انہیں ہر دفعہ کے تحت تین تین برس قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

حکومت کے ناقدین نے لفٹننٹ گورنر کے حکم نامے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اروندھتی رائے اور دوسرے مقررین نے کانفرنس کے دوراں جو کچھ کہا تھا وہ غلط تھا یا صحیح، اس سے قطع نظر قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف یو اے پی اے جیسے سخت گیر قانون کو استعمال کر رہی ہے۔

بھارت کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی نے اروندھتی رائے اور پروفیسر شیخ شوکت کے خلاف کانفرنس کے انعقاد کے 14 برس بعد یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کو منطق کے منافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فسطائی ذہنیت کا بھی عکاس ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here