طالبان قیام امن میں دلچسپی نہیں رکھتے، امریکی رکن پارلیمنٹ

0
272

امریکی ایوانِ نمائندگان کے رکن مائیکل والٹز نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے کہے پر یقین نہیں کرتے، کیونکہ، بقول ان کے، ”طالبان نے اپنے عملی اقدامات سے القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروپوں کی کبھی مذمت نہیں کی”۔

انہوں نے کہا کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب حملے تواتر سے ہو رہے ہیں، ”ایسے میں امریکہ اور افغان حکومت امن عمل کو کیسے جاری رکھ سکتے ہیں”۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے انٹرویو میں، ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والےکانگریس مین والٹز نے بدھ کے روز، افغانستان میں ایک زچہ بچہ وارڈ پر دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”شیطانی اور بزدلانہ عمل” قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خواتین اور بچوں پر حملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امن کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار تو کیا ہے، لیکن وہ طالبان کا بھروسہ نہیں کرتے۔

اس سوال کے جواب میں کہ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے اپنی افواج کو طالبان پر حملے کرنے کی ہدایات جاری کرنے سے بین الافغان بات چیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، کانگریس مین والٹز کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس طرح کے تشدد میں جب ان کی افواج اور پولیس پر مسلسل حملے ہو رہے ہوں، بین الافغان بات چیت کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟ اور حکومت ایسے حالات میں کیسے بات چیت کا آغاز کر سکتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ یہ بات پوری طرح سے عیاں ہے کہ طالبان قیام امن میں دلچسپی نہیں رکھتے، بلکہ وہ امن معاہدے کی آڑ میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مخفی انداز میں حکومت کے خلاف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بقول ان کے، ”طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بھی تشدد میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی؛ نہی امن کی جانب ان کے قدم اٹھتے دیکھے ہیں۔ اس لئے، افغان حکومت کے پاس اپنے دفاع کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے”۔

ا±ن سے سوال پر کہ امریکی محکمہ خارجہ نے ان حملوں کے بعد، طالبان اور افغان حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، تو کیا طالبان تعاون کریں گے؟ جواب میں کانگریس مین نے کہا کہ سبھی امن کے خواہاں ہیں اور تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لیکن، بہت برسوں سے اس قسم کے تشدد کی ہدایات طالبان تنظیم کے بہت اوپری سطح سے جاری کی جاتی رہی ہیں۔ اس لئے انہیں ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ دونوں فریق حملہ آوروں کو انجام تک پہنچانے میں ایک دوسرے کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔

اس بیان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے، انھوں نے کہا افغان حکومت اور طالبان کو امریکہ ایک ہی پلڑے میں تول رہا ہے، جبکہ وہ برابر نہیں ہیں۔ دونوں میں کوئی تو برابری ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت ایک منتخب حکومت ہے۔ اور وہ ایک آئین کی تابع ہے، اور اپنی عوام کیلئے کام کرتی ہے۔ اس کے بہت سے مسائل تو ہیں، لیکن یہ جمہوریت کا حصہ ہیں۔ اور ایک جمہوریہ ہے۔ اس کے مقابلے میں طالبان ایک باقاعدہ دہشت گرد تنظیم ہے جو کہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ طالبان ان مذاکرات کو استعمال کرکے، امریکہ کے جانے کے بعد نئے سرے سے اپنا اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں؛ اور یہ امریکہ، افغان حکومت اور عوام کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

یہ پوچھنے پر کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کر دیا تھا کہ اگر طالباان نے اپنے وعدے سے روگردانی کی تو امریکہ اس معاہدے سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ تو وہ کیا صورتحال ہوگی کہ امریکہ طالبان کے ساتھ معاہدے سے پیچھے ہٹے؟

کانگریس مین والٹز نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے تو بات نہیں کرنا چاہتے، لیکن بطور ایک رکنِ کانگریس جو افغانستان میں بطور فوجی اپنے بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے ہیں، وہ یہ کہنا چاہیں گے کہ افغان فوج پر طالبان کا حملہ بلکل ویسا ہی ہے جیسا کہ امریکی یا اس کے شراکت داروں کی فوج پر حملہ؛ کیونکہ شدت پسندی کےخلاف جنگ میں سب اکٹھے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ”شدت پسندی کے خلاف یہ ایک عالمی جنگ ہے؛ جو ہم سب اپنے بچوں کے واسطے ایک بہتر اور پر امن مستقبل کے لئے شدت پسندی کے خلاف لڑ رہے ہیں”۔

انہوں نے کہا کہ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ اگر طالبان کو کبھی کسی قسم کا اقتدار ملتا ہے، تو پھر ان کے خیال میں وہ ایک ایسی صورتحال ہوگی جس میں القاعدہ، داعش اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروپ اور دیگر دہشت گرد یورپ اور امریکہ کے خلاف حملے شروع کریں گے۔ اس لئےکہ یہ سب گروپ ایک ہی ہے”۔

کانگریس مین کا کہنا تھا کہ طالبان کے نزدیک امریکہ اور دیگر قوتیں کرونا وائرس کے پھیلاو¿ پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں، لیکن ایوان کی آرمڈ سروسز کمیٹی، محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع اور وہ اراکین کانگریس جو افغانستان میں جنگ لڑ چکے ہیں، اپنی پوری توجہ افغانستان پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، امریکی اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اور طالبان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے۔

کرونا وائرس کے خطرے اور امن معاہدے کے تناظر میں صدر اشرف غنی اور عبدللہ عبدللہ کے درمیان جاری مذاکرات کے اثرات پر بات کرتے ہوئے، کانگریس مین مائیکل والٹز نے کہا کہ ”طالبان سیاسی تعطل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے، اور عدم اتفاق کی صورت میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر میرے نزدیک اس سے حکومت کا ردِ عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے”۔ انہوں نے دونوں فریقین پر زور دیا کہ وہ اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، ملک کو اولیت دیتے ہوئے، کسی معاہدے پر پہنچیں؛ چونکہ، ”امریکہ کو افغانستان کی سیکیورٹی، معاشی ترقی اور بہبود میں دلچسپی ہے”۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here