Site icon Daily Sangar

پاکستانی فوج کوعوام کی طرف سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے،نیویار ک ٹائمز

پاکستان کے انتخابات کو بیرونی دنیا میں بھی توجہ سے دیکھا جا رہا ہے اور کئی عالمی اخبارات نے پاکستان کے انتخابی عمل کو اپنی خبروں کا موضوع بنایا ہے ۔

اس سلسلے میں امریکی اخبار نیویار ک ٹائمزنے Pakistan’s Stormy Politics Are Laid Bare in Election، کے عنوان کے تحت اپنے تفصیلی آرٹیکل کی ابتدا میں کہا ہے کہ پاکستانیوں نے اسے الیکشن نہیں سلیکشن کا نام دیا ہے۔ انسانی حقوق کے مبصرین کے مطابق یہ نہ تو آزاد ہے اور نہ ہی منصفانہ ۔

اخبار مزید لکھتا ہےکہ “فوج کو غیر مطمئن عوام کی طرف سے اپنی اتھارٹی کے لیے نئے چیلنجز کا سامنا ہے، اس طرح یہ ملک کی تاریخ کا ایک فکر مندی پر مبنی لمحہ ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق اگرچہ پی ایل ایم کی جیت یقینی دکھائی دے رہی ہے، تاہم اس بارے میں اب بھی کچھ دیرینہ سوالات باقی ہیں کہ ووٹنگ کا آخر کار کیا نتیجہ نکلے گا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جنرلوں کے ساتھ نواز شریف کی متنازعہ تاریخ کے پیش نظر فوج، انہیں وزیر اعظم نہیں بننے دے گی۔ فوج اس کے بجائے ان کے بھائی، سابق وزیر اعظم شہباز شریف کو آگے بڑھانے کی کوشش کر سکتی ہے جو عوام میں کم مقبول ہیں۔

نیویارک ٹائمز نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ کریک ڈاؤن کے باوجود، تجزیہ کاروں کے مطابق جمعرات کو پی ٹی آئی کے ووٹرز بڑی تعداد میں باہر آئے، جس سے یہ امکان پیدا ہوا ہےکہ فوج ووٹوں کی گنتی میں چھیڑ چھاڑ کر سکتی ہے۔ تاہم اخبار کے مطابق”اگر فوج نے ایسا کیا تو اس سے احتجاج شروع ہو سکتا ہے۔”

ٹائمز آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوارں کے گروپ نے اپنی جیت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ان کی جیت کی حفاظت کریں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ جمعرات کو ہونے والی ووٹنگ تشدد کے اکا دکا واقعات اور انٹرنیٹ کے رابطوں میں مسائل کے ساتھ مکمل ہو گئی۔

ٹائمز آف انڈیا کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ عمران خان جیل میں ہیں، سابق وزیر اعظم نواز شریف یہ توقع کر رہے ہیں کہ انتخابات میں ان کی پارٹی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان میں آنے والی نئی حکومت کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ قوم پرستوں سے نمٹنا ہو گا جو ملک کے لیے مسلسل ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

Exit mobile version