بی بی سی اردو نے کراچی پولیس کی حراست میں بلوچ نوجوان کی بہیمانہ قتل کے حوالے سے جاری اسٹوری میں کہا ہے کہ ’خیموں میں بیٹھے بھوکے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو دیکھ کر عرفان نے انھیں کہا کہ ان سے یہ حالت نہیں دیکھی جاتی وہ کراچی میں جاکر محنت مزدور کریں گے اور انھیں کچھ رقم بھیجیں گے۔۔۔ لیکن یہاں وہ پولیس کی بربریت کا نشانہ بن گئے۔‘
یہ الفاظ سولہ سالہ عرفان بلوچ کے چچا اظہر ضیا کے ہیں جو احمد پور شرقیہ سے ٹیلیفون پر بی بی سی سے بات کر رہے تھے جہاں انھوں نے ایک روز قبل ہی عرفان کی تدفین کی ہے۔
سولہ سالہ عرفان کو سپیشل انویسٹی گیشن پولیس نے دیگر کزنز کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ دورانِ حراست ان کی ہلاکت ہو گئی ہے۔
اظہر ضیا نے بتایا کہ عرفان صبح کے وقت ناشتہ کرنے گئے تھے، عائشہ منزل پر ویڈیو بناتے ہوئے انھیں ایس آئی یو نے گرفتار کیا۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ ’عائشہ منزل پر کونسی حساس جگہ ہے جس کی ویڈیو بنا کر انھوں نے کوئی جرم کیا ہے؟ وہاں تو کچھ ٹھیلے والے بیٹھے ہوتے ہیں۔‘
اظہر ضیا کے مطابق عرفان کے ساتھ گرفتار کیے گئے دیگر چار لڑکوں نے انھیں گرفتاری کے بعد تھانے میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق بتایا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’عرفان پر تھانے کے اندر تشدد کیا گیا، ایش ٹرے سینے پر ماری گئی اور جب وہ زمین پر گر کر پانی مانگ رہے تھے تو اسے کو پینے کے لیے پانی تک نہیں دیا گیا۔‘
بی بی سی نے ان دعوؤں کے حوالے سے ایس ایس پی ایس آئی یو امجد شیخ سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم تادمِ تحریر انھوں نے بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سعید نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی پوسٹ مارٹم میں عرفان کے جسم پر زخم کے متعدد نشانات پائے گئے ہیں جبکہ موت کی وجہ کو محفوظ رکھا گیا ہے۔
پولیس کے ڈیتھ سرٹیفیکٹ کی رپورٹ کے مطابق متوفی کے پشت، گردن اور دائیں ران پر سرخ نشانات اور دائیں ٹانگ کے ٹخنے کے پاس زخم کا نشان ہے۔
عرفان کے خاندان کا تعلق اُچ شریف سے ہے۔ وہ چار بہن بھائی ہیں جن میں عرفان سب سے بڑے تھے۔
اظہر ضیا کے مطابق ان کے والد کسان ہیں جو بیٹے کی لاش دیکھنے کے بعد سے اپنے حواس میں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا تو دل ٹوٹا ہوا، آنکھیں غمزدہ ہیں، اتنا ظلم ہوا ہے۔‘
دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ عرفان کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سیکریٹری داخلہ سندھ کو احکامات جاری کیے گئے ہیں جبکہ لواحقین مطالبہ کر رہے ہیں کہ پولیس کے بجائے ایف آئی اے سے انکوائری کرائی جائے۔
وزیر داخلہ سندھ کے مطابق واقعے کی مکمل فرانزک اور تفتیش کی جائیگی اور ملوث افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
ضیا الحسن لنجار کا کہنا ہے کہ ’اس پر افسوس ہے کہ بچے کی پولیس کی کسٹڈی پر موت واقع ہوئی۔‘
یاد رہے کہ نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کے مطابق زیر حراست حراستگی کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گی۔
پولیس نے سرکار کی مدعیت میں واقعے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف قتل خطا کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔
اس مقدمے سے معلوم ہوتا ہے کہ عرفان اور دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق مدعی انسپکٹر ممتاز نے بتایا کہ اے ایس آئی زبیر نے ایک مقدمہ درج کیا تھا جس میں عرفان اور دیگر کو گرفتار کیا گیا۔ دوران تفتیش عرفان کی طبعیت خراب ہو گئی اور اے ایس آئی عرفان کو ہسپتال بھیجنے اور ایس ایچ او کو اس بارے میں آگاہ کیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عرفان کی موت ہو گئی ہے۔
مدعی انسپکٹر ممتاز کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’جس اے ایس آئی نے مقدمہ درج کیا ہے وہ بھی مشکوک لگتا ہے۔‘