زہری میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکتیں، بی این ایم کا عالمی برادری سے نوٹس لینے کی اپیل

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل زہری گذشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے پاکستانی فوج کے فضائی و زمینی حملوں کی زد میں ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے مطابق، ستمبر 2025 کے وسط میں فوج نے بلوچ مزاحمتی تحریک کو دبانے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا، جس کے نتیجے میں درجنوں شہری جان سے گئے جبکہ متعدد زخمی اور جبری لاپتہ ہوئے۔

بی این ایم کا کہنا ہے کہ زہری طویل عرصے سے بلوچ آزادی کی جدوجہد اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے اور اس سے قبل بھی فوجی آپریشنز میں اجتماعی قبریں، جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل عام کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

17 ستمبر 2025 کو تراسانی کے قریب مبینہ پاکستانی ڈرون حملے میں آمنہ (40 سال)، لال بی بی، اور محمد حسن (30 سال) ہلاک ہوگئے، جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ فوج نے اس حملے کی تصدیق کی۔
5 اکتوبر 2025 کو زہری کے علاقے مولا چاڑی میں گن شپ ہیلی کاپٹروں سے ایک گھنٹے تک گولہ باری کی گئی، جس میں چار بچے، ایک عورت اور ایک مرد جاں بحق ہوئے۔

بی این ایم نے کہا ہے کہ فوج بلوچ عوام کے خلاف کارروائیوں کو جواز دینے کے لیے مذہبی و سیاسی اصطلاحات جیسے “فتنہ الہندستان” اور “فتنہ الخوارج” استعمال کرتی ہے تاکہ عوام کو گمراہ کیا جا سکے اور بلوچوں کے خلاف نفرت ابھاری جا سکے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ نے اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور جمہوری ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لیں۔

بی این ایم نے کہا ہے کہ ، پاکستان ایک “دہشت گرد ریاست” ہے جو بلوچ عوام کے وسائل کا استحصال کرتی ہے اور مغربی طاقتیں جغرافیائی و معاشی مفادات کے باعث خاموش ہیں۔

بی این ایم کا مؤقف ہے کہ بلوچستان کی آزادی نہ صرف بلوچ قوم کی بقا اور وقار کے لیے بلکہ علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔

Share This Article