آواران کے 2 نوجوان ھورماڑا سے 2 جبری لاپتہ، لواحقین کی پریس کانفرنس میں بازیابی کا مطالبہ

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچستان کے ضلع آواران سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان، صغیر احمد ولد غلام قادر بلوچ اور اقرار ولد جنگیان، 11 جون کی رات ساحلی شہر ھورماڑا چیک پوسٹ سے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیے۔

واقعے کو 20 دن گزر چکے ہیں، لیکن تاحال ان کے بارے میں نہ کوئی اطلاع دی گئی ہے، نہ ہی کسی تھانے میں گرفتاری درج ہے اور نہ ہی کسی عدالت میں پیشی عمل میں آئی ہے۔

آج شال میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ( وی بی ایم پی ) کے احتجاجی کیمپ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران لاپتہ نوجوان صغیر احمد کی بہن اور اقرار بلوچ کی کزن نے واقعے کو "ریاستی ظلم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ: جبری گمشدگیاں بلوچستان میں معمول بن چکی ہیں، لیکن ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ورنہ انھیں فوری رہا کیا جائے۔

اہلِ خانہ نے کہا کہ نوجوانوں کو ھورماڑا چیک پوسٹ پر تربت سے کراچی جاتے ہوئے روکا گیا اور غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا۔ صغیر احمد ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جنھوں نے کراچی اور سرگودھا یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی، اور اپنے علاقے میں روزگار نہ ملنے پر تربت میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان کے کزن اقرار بلوچ گردے کے مرض میں مبتلا ہیں اور انھیں فوری علاج کی ضرورت ہے۔

پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ صغیر احمد کو ماضی میں بھی 2017 میں کراچی یونیورسٹی میں امتحان دینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، جہاں وہ ایک سال تک نامعلوم مقام پر قید اور تشدد کا شکار رہے۔

اہلِ خانہ نے سوال اٹھایا یہ کیسا انصاف ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ریاست کے لیے خطرہ سمجھے جائیں؟ یہ کیسی ریاست ہے جہاں آئین سے زیادہ بندوق کی زبان چلتی ہے؟

انوں نے مطالبہ کیا کہ صغیر احمد اور اقرار کو فوری طور پر منظرِ عام پر لایا جائے۔اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور قانونی حقوق دیے جائیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں۔

پریس کانفرنس کے آخر میں انھوں نے کہاہم اب خاموش نہیں رہیں گے۔ بلوچ نوجوان مزید لاپتہ ہونے کے لیے پیدا نہیں ہوتے۔ ہم عزت سے جینا چاہتے ہیں، لیکن اگر ریاست ہمیں تحفظ دینے کے بجائے ہمیں ہی شکار بنائے، تو ہم کہاں جائیں؟

اہلِ خانہ نے اپنے پیاروں کی بازیابی تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا، اور صحافیوں و انسانی حقوق کے کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ ان کی آواز بنیں۔

Share This Article