شال میں جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5865 دن مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ کیمپ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کے زیر اہتمام قائم ہے، جو گذشتہ سولہ برسوں سے جبری گمشدگیوں کے خلاف پرامن احتجاج کر رہا ہے۔ اتوار کے روز مختلف سیاسی و سماجی شخصیات نے کیمپ کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ یکجہتی کیا۔ ان شخصیات میں نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن حاجی فاروق شاھوانی، بی ایس او بچار کے سابق چیئرمین محمد اسلم بلوچ، رحمت بلوچ اور دیگر شامل تھے۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریاستی ادارے اور نظام جو انصاف فراہم کرنے کے بجائے ناانصافی کے مرتکب ہوں، ان پر خاموشی اختیار کرنا امن کے دعوے کی نفی اور ایک اجتماعی منافقت ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ریاستی طاقت کا استعمال صرف مسلح تنازعات تک محدود نہیں رہا بلکہ عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں فوجی آپریشنز، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروں کے ذریعے کیے جا رہے ہیں، جبکہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کو استعمال کر کے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے سنگین جرائم انجام دیے جا رہے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ہزاروں بلوچ شہری ان مظالم کا شکار ہو چکے ہیں۔ انھوں نے عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں اور اس مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل کر کے مؤثر عملی اقدامات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوموں کے لیے آواز بلند کرے اور انصاف کے قیام کے لیے خاموشی ترک کرے۔