لوگ پارلیمنٹ سے مایوس ہوچکے ہیں، اب وکلاء بھی عدالتی نظام سے بیزار ہونگے،اختر مینگل

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بی این پی کے قائد سردار اختر مینگل نے سنیچر کے روزتربت میں کیچ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام بار روم میں ”پاکستان کاعدالتی نظام اور آئین میں دئیے گئے انسانی حقوق“کے موضوع پر بطورمہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاسی ومعاشی زبوں حالی اوربحران کا ذمہ دار سیاسی اشرافیہ، عدالتی نظام اورمیڈیا ہے، پارلیمنٹ سے مایوسی کے باعث لوگ بندوق کا سہارا لینے پرمجبورہوچکے ہیں،وہ وقت دورنہیں کہ وکلاء عدالتی نظام سے بھی بیزاری کااظہارکریں گے۔

انہوں نے کہاکہ انسانی حقوق کی اگرکسی کوپہچان نہیں ہے تو وہ بلوچستان میں آکر قبرستان دیکھے، توتک کی اجتماعی قبریں دیکھے، پارلیمنٹ سے لوگ مایوس اوربیزار ہوچکے ہیں، پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے جائز حقوق کی امید نظرنہیں آتی، جس پارلیمنٹ میں سوال کرنے اور اظہار خیال کی اجازت نہ ہو وہاں بیٹھنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، جبکہ عدالتی نظام سے بھی انصاف کی امید نہیں، عدالتی نظام کیلئے اس سے بڑا المناک مقام کیا ہوسکتاہے کہ ماہ رنگ ودیگر کے وکلاء کو کہاگیا کہ وہ اپنے کلائنٹس سے آئین کے آرٹیکل 5کے تحت حلف وفاداری لیکر جمع کرائیں جبکہ میڈیا مکمل طورپر پابند اورکنٹرول ہے، پارلیمنٹ، عدلیہ اورمیڈیا اسٹیبلشمنٹ کے زیراثرہیں کوئی ادارہ ایسانہیں کہ جہاں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہ ہو، وزراء صرف واسکٹ پہنے کی حدتک وزیر ہیں بات صرف اسٹیبلشمنٹ کی چلتی ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنی اکثریت حاصل کرنے اور کرسی کیلئے سادہ کاغذ پر دستخط کرکے دیتے ہیں انہیں عوام سے کوئی سروکارنہیں، اقتدار کی سیاست کرنے والی پارٹیاں کرسی پر بیٹھنے کے بعد اپنے محسن کا احسان چکانے کیلئے عوام سے یکسر لاپرواہ ہوجاتے ہیں۔

، انہوں نے کہاکہ بلوچ بچیوں کی ماورائے آئین وقانون گرفتاری کے بعد ہم نے وڈھ سے کوئٹہ لانگ مارچ کیا مگر ہمارے لانگ مارچ کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روک دیاگیا جس کے بعد ہم نے لک پاس پر دھرنا دیا، ڈاکٹر ماہ رنگ ودیگر کی رہائی تک جدوجہد جاری رہے گی، تمام سیاسی جماعتیں، سیاسی، سماجی وقبائلی شخصیات،وکلاء، سول سوسائٹی غرض ہرمکتبہ فکر کو اس جدوجہد میں شامل ہونا چاہیے میں نہیں کہتاکہ وہ ہمارے ساتھ آئیں بلکہ میں اس مقصد کیلئے کسی کے بھی پیچھے چلنے کیلئے تیار ہوں۔

انہوں نے کہاکہ آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے بعد بلوچستان کو لاشوں کے پیکیج دئیے گئے۔

بی این پی کے مرکزی رہنما سابق سینیٹر ثناء بلوچ نے کہاکہ یہ جدوجہد آئندہ نسلوں کی جدوجہد ہے، مائنز اینڈ منرل ایکٹ کو کچھ جماعتیں مسترد کرنے کے بجائے اس پر تحفظات کی بات کررہے ہیں جو عوام کو دھوکہ دینے اور انہیں اندھیرے میں رکھنے کی باتیں ہیں، بلوچستان کو ایک طویل قانونی اور آئینی جدوجہد کی ضرورت ہے، جس میں وکلاء کو بھی اپنا کردارنبھانا چاہیے۔

کیچ بار ایسوسی ایشن کے صدر مجید شاہ ایڈووکیٹ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں ماورائے آئین وقانون اقدامات کے خلاف مزاحمتی جمہوری جدوجہد اورلانگ مارچ اور دھرنا پر ہم سردار اخترمینگل کی جدوجہد کو سراہتے ہیں، 20دن تک چلتن کے دامن میں سیاسی سرکل قابل ستائش ہے، وکلاء تنظیمیں آئینی جمہوری جدوجہد میں ہراول دستہ کا کردار اداکریں گے۔

انہوں نے نیشنل پارٹی کے قائد ڈاکٹر مالک سے اپیل کی کہ وہ مزاحمتی جمہوری جدوجہد میں سردار اخترمینگل کا ساتھ دیکر اس جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔

پروگرام سے مکران ہائی کورٹ بار کے سابق صدر محراب خان گچکی نے بھی خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کیچ بار کے سابق صدرجاڑین دشتی ایڈووکیٹ نے سرانجام دئیے۔

پروگرام میں بی این پی کے رہنما حمل کلمتی، شفقت لانگو، ڈاکٹر عبدالغفور بلوچ، نصیر احمد گچکی، بی ایس او کے چیئرمین بالاچ قادر، کرم خان بلوچ ودیگر بھی شریک تھے۔

Share This Article