بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پوسٹ میں کہا ہے کہ اگر سڑکیں بند کرنا ہی مسئلہ ہے، تو بلوچ شہریوں کو پریس کلب کے سامنے پرامن احتجاج کا حق کیوں نہیں دیا جا رہا؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر مسئلہ محض مینٹیننس آف پبلک آرڈر (MPO) ہے، تو بیبرگ کے اُس بھائی کو کیوں قید کیا گیا ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں؟ اُس کی 3MPO کی توسیع بغیر کسی واضح وجہ کے کیوں کی گئی؟۔ اگر مسئلہ میرے ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کا ہے، تو میرے والد کو کس جرم میں پچھلے پندرہ دنوں سے قید رکھا گیا ہے؟
انہوںنے کہا کہ اگر معاملہ حق اور انصاف کا ہے، تو سریاب کی سڑکوں پر قتل کیے گئے معصوم افراد اور وڈھ میں جاں بحق ہونے والے شہری کے لیے ریاست انصاف فراہم کرنے میں کیوں ناکام رہی؟۔اگر بات بیانیے (نیرٹیو) کی ہے، تو ریاست اپنے بیانیے کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے مالی وسائل کا سہارا کیوں لے رہی ہے؟ یہ بیانیہ عوامی حمایت سے خود بخود مقبول کیوں نہیں ہو پا رہا؟۔
ان کا کہنا تھاکہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ روزِ اول سے ہی بلوچ نسل کشی کا ہے،یہ ہر اُس بلوچ کا معاملہ ہے جو خاموشی میں قتل کیا گیا۔ بلوچ قوم کی نسل کشی کوئی نئی بات نہیں۔یہ ایک مسلسل، منظم اور ریاستی پالیسی کا حصہ ہے جو روزِ اول سے جاری ہے۔ ہر خاموشی سے قتل ہونے والا بلوچ، ہر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا فرد، اس سچائی کی زندہ گواہی ہے۔
بی وائی سی رہنما نے کہا کہ ریاست ایک منصوبے کے تحت بلوچ کو اس کی اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے پر کام کر رہی ہے۔ وسائل پر قبضے، جبری گمشدگیاں، اور جھوٹے بیانیے، یہ سب اس نسل کشی کو چھپانے کی کوششیں ہیں۔
ڈاکٹر صبیحہ نے کہا کہ جب ففتھ جنریشن وار فئیر کے نام پر اربوں خرچ ہو رہے ہیں، جب ہر روز پریس کانفرنسوں میں حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے، تب بھی بلوچوں کا بہتا خون چیخ چیخ کر سچ بول رہا ہے۔ ہر لاش، ہر احتجاج، ہر گمشدہ چہرہ اس بات کی گواہی ہے کہ بلوچ قوم کو منظم انداز میں مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے
مگر بلوچ قوم فیصلہ کرچکی ہے کہ ہم لکھتے رہیں گے، بولتے رہیں گے اس سچائی کی جدوجہد کو ریاستی زر خرید سپاہی شکست نہیں دے سکتے۔ ان کے پاس صرف دولت کی لالچ ہے، ہمارے پاس نظریہ اور سچے جذبات کی طاقت ہے۔
انہوں نے بلوچ عوام سے مخا طب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی بوکھلاہٹ روزِ اول سے عیاں ہے۔ “تھری ایم پی” محض ایک بہانہ ہے، اصل مقصد بلوچ نسل کشی میں شدت لانا اور بلوچ قوم کی آواز کو خاموش کرنا ہے۔ جعفر ایکسپریس سے جڑے واقعے کو (BYC) سے جوڑ کر ریاست ہم سے وابستہ عوامی ہمدردیوں کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کو مسئلہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، شاہ جی بلوچ، بیبرگ بلوچ یا گلزادی بلوچ سے بطور افراد نہیں، بلکہ ان کی بیدار، توانا اور حق پر مبنی آوازوں سے ہے۔ ڈاکٹر ماہرنگ اور بیبو بلوچ کی تھری ایم پی میں بلاجواز ایک ماہ کی توسیع ریاستی عزائم کا واضح ثبوت ہے۔
بی وائی سی رہنما نے کہا کہ اس منظم کریک ڈاؤن کا واحد جواب یہی ہے کہ ہم اپنی جدوجہد کو مزید منظم اور با اثر بنائیں۔ سچائی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں کیونکہ ظلم کے جھوٹ کے خلاف سچ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔اپنی جدوجہد جاری رکھیں! مظلوم کی سچائی کبھی ہار نہیں سکتی، اور دنیا کا کوئی خریدا گیا بیانیہ اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا۔