بلوچستا ن کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت اور ہوشاپ میں بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کیخلاف گذشتہ ایک ہفتے سے جاری احتجاجی دھرنوں کو ضلعی انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذکرات کے بعدختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ضلع کیچ کے داخلی اور خارجی راستوں پہ دو مقامات پر دھرنوں سے ضلع کا بین الصوبائی رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔
دھرنوں سے تربت تا گوادر کراچی، و گوادر تا کوئٹہ کا ٹریفک بند رہی اورمسافروں کے پھنسنے کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر معطل رہیں۔

گذشتہ شب ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اسسٹنٹ کمشنر تربت محمد جان بلوچ کی سربراہی میں شہید فدا چوک پر 8 دنوں سے جاری دھرنا منتظمین کے ساتھ مزاکرات کامیاب ہوئے جس کے بعد ظریف عومر اور نوید حمید کی فیملی نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
واضع رہے کہ تمپ دازن سے ظریف عمر اور بلیدہ سے نوید حمید کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف شہید فدا چوک تربت سے ایک ہفتے سے جاری رہنے والی دھرنے کو جمعہ کے روز ڈی بلوچ پوائنٹ پر منتقل کردیاگیاتھا جس سے سی پیک مرکزی شاہراہ بند ہوگیاتھا۔
دھرنا گاہ میں مزاکرات کے لیے کیچ بار ایسوسی ایشن اور مکران بار ایسوسی ایشن نے کردار ادا کیا، سنیئر وکلا میں سے محراب خان گچکی ایڈووکیٹ، مجید شاہ ایڈووکیٹ اور جاڈین دشتی ایڈووکیٹ نے مزاکراتی کمیٹی میں حصہ لیا جب کہ اسسٹنٹ کمشنر تربت نے ڈپٹی کمشنر کیچ کی طرف سے فیملی ممبران کے مطالبات منظور کرتے ہوئے ان پر بہت جلد عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔
مزاکرات میں ضلعی انتظامیہ کو ظریف عومر کے اہل خانہ کی ہراسانی ختم، لاپتہ افراد کی ایک لیسٹ دی گئی جنہیں بازیاب کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور ظریف عومر و نوید حمید کے قتل میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کے لیے کہا گیا جس کی انہوں نے یقین دہانی کرائی اور کہاکہ لاپتہ افراد کے لیسٹ میں سے کچھ افراد اگلے 24 گھنٹوں کے دوران رہا یا بازیاب کیے جائیں گے جب کہ دیگر افراد کو بھی بازیاب یا رہا کرایا جائے گا۔
اس دوران ظریف عومر کی بہن اور وکلا نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ضلعی انتظامیہ کو ان کے وعدوں کی پاس داری یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے انتباہ کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو وہ دوبارہ اپنا دھرنا اسی چوک پر شروع کریں گے۔

یاد رہے کہ 26 دسمبر 2024 کی شب ضلع کیچ کے علاقے تمپ میں پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنیااور انہیں کمروں میں بند کرکے ظریف بلوچ کو حراست میں لیکر جبری لاپتہ کیاتھا بعدازاں گھرکے نزدیک اس کی لاش برآمدہوئی تھی جسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ورثا کا کہنا ہے کہ ظریف کو تشددکے ساتھ ساتھ زہر کاا نجکشن بھی لگایا گیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی تھی ۔
جبکہ دوسری طرف ہوشاپ میں زمان جان اور ابولحسن کیلئے سی پیک شاہراہ پر دھرنادینے والے مظاہرین سے اسسٹنٹ کمشنر تربت محمد جان بلوچ کی سربراہی میں زمان جان اور ابوالحسن کی فیملی نے ضلعی انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد سی پیک شاہراہ ہوشاپ زیرو پوائنٹ پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔

اسسٹنٹ کمشنر تربت محمد جان بلوچ نے زمان جان اور ابوالحسن کی فیملی کے تمام مطالبات منظور کیے جب کہ گرفتار زمان جان اور ابوالحسن کی فیملی سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا گیا جس کی فیملی نے تصدیق کی۔
فیملی کے مطالبات میں مسلسل ہراسانی کا خاتمہ، زمان جان اور ابوالحسن کی گمشدگی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے سمیت دیگر مطالبات پیش کیے گئے۔
واضح رہے کہ زمان جان اور ابوالحسن کو 16 دسمبر میں ڈسٹرکٹ کونسل کیچ کے چیئرمین کے کہنے پر فورسز کے حوالے کیا گیا تھا ان کے ساتھ الطاف نامی ایک نوجوان بھی تھا جنہیں بعد میں رہا کیا گیا۔ زمان جان اور ابوالحسن کی گرفتاری سی ٹی ڈی کے ذریعے یکم جنوری کو قلعہ عبداللہ سے ظاہر کرتے ہوئے ان پر مسلح تنظیم سے منسلک ہونے کا دعوی کیا گیا تاہم لواحقین نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے سی پیک شاہراہ پر اپنا دھرنا جاری رکھاتھا اور انہیں فوری طور پر عدالتوں پیش کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔