ہندوقوم پرست تنظیموں کی مربی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ نے خاندان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی معاشرہ کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.1 سے کم ہو جائے تو وہ تباہ ہو جائے گا۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندوتوا تنظیم کے ہیڈکوارٹر ناگپور میں اتوار کے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت میں خواتین کی بارآوری (فرٹیلیٹی) کی گرتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ جوڑوں کو کم از کم تین بچے پیدا کرنے چاہئیں تاکہ بھارت کی آبادی میں کمی نہ آئے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا مشورہ مناسب، سود مند اور قابل عمل نہیں ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز میں ڈیموگرافی کے پروفیسر سری نیواس گولی کے مطابق، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینا شرحِ پیدائش میں کمی کے مسئلے کا مؤثر حل نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی پیدائش اور پرورش کے اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے خاندانوں کے لیے بچوں کو جدید طرزِ زندگی کے معیار کے مطابق پالنا مشکل ہوگیا ہے۔ اسی لیے بہت سے جوڑے بچوں کی پیدائش کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
موہن بھاگوت کئی سال قبل بھی ہندو جوڑوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کرچکے ہیں۔ انہوں نے 18 اکتوبر 2016 کو ہندوؤں کے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، "کون سا قانون کہتا ہے کہ ہندوؤں کی آبادی نہیں بڑھنی چاہئے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب دوسروں کی آبادی بڑھ رہی ہے تو ان (ہندوؤں) کے سامنے کیا روکاوٹ ہے؟” بھاگوت کے بیان پر بعض حلقوں نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔
موہن بھاگوت نے خاندان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی معاشرہ کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.1 سے کم ہو جائے تو تباہ ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کٹمب‘ (خاندان) معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے، جس میں ہر خاندان ایک اکائی کے طور پر کام کرتا ہے۔
بھاگوت نے مزید کہا، کم ہوتی آبادی تشویشناک ہے کیونکہ پاپولیشن سائنس کے مطابق اگر ہم 2.1 سے نیچے چلے جائیں تو وہ معاشرہ فنا ہو جائے گا، کوئی بھی اسے تباہ نہیں کرے گا، یہ خود ہی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے اسے کسی بھی قیمت پر 2.1 سے نیچے نہیں آنا چاہیے۔ 1998 یا 2002 مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، کی آبادی کی پالیسی کے مطابق کہا گیا تھا کہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.1 سے نیچے نہیں ہونی چاہیے۔ اب کوئی انسان 0.1 فریکشن میں پیدا نہیں ہوا ہے … اس لیے اسے کم از کم تین ہونا چاہیے۔”
موہن بھاگوت نے، اس سے پہلے، ناگپور میں دسہرہ ریلی کے دوران، کہا تھا کہ بھارت کو ایک سوچی سمجھی آبادی کی پالیسی کی ضرورت ہے جو تمام کمیونٹیز پر یکساں طور پر لاگو ہو۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کمیونٹیز کے درمیان آبادی کا عدم توازن جغرافیائی حدود کو متاثر کر سکتا ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ملک میں کمیونٹیز کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
بھاگوت کے بیانات ایسے وقت میں آئے ہیں جب جنوبی بھارت کے وزرائے اعلیٰ نے اپنی ریاستوں میں لوگوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔