پابندیاں دوبارہ لگیں تو جوہری ہتھیار بنانے کی پابندی ترک کر ینگے، ایران

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read
فوٹو بشکریہ اے پی

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا یہ بیان اخبار گارڈین کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران تہران کی تین مغربی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاملے پر بات چیت سے ایک روز قبل آیا ہے۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی جمعے کو ایران سے جوہری معاملے پر بات کریں گے۔ اس ملاقات سے قبل تینوں ملکوں نے امریکہ کے ساتھ ہم آواز ہو کر اقوام متحدہ کے ایٹمی نگراں ادارے کی طرف سے ایران کی مذمت کی حمایت کی ہے۔

گزشتہ ہفتے کے تنقید کے جواب میں تہران نے ایک منحرف انداز اپنایا ہے۔

تاہم، ایرانی حکام نے امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکومت سنبھالنے سے قبل دوسرے فریقین سے بات چیت کے لیے آمادگی کا اشارہ دیا ہے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دورحکومت میں امریکہ نے اسلامی جمہوریہ ایران پر "زیادہ سے زیادہ دباؤ” ڈالنے کی پالیسی پر عمل درآمد کیا تھا۔

ایران کا اصرار ہے کہ اسے پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کا حق حاصل ہے۔

لیکن اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق ایران دنیا کا واحد جوہری ہتھیار نہ رکھنے والا ملک ہے جو اس وقت 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔

جمعرات کو شائع ہونے والے انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ نے تہران کی جانب سے اس بات پر غصے کا اظہار کیا کہ وعدوں کے مطابق ایران پر عائد پابندیاں ابھی تک ہٹائی نہیں گئی ہیں۔

ان کے مطابق اس صورت حال نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ آیہ ایران کو اپنی جوہری پالیسی یا نظریے میں تبدیلی لانی چاہیے۔

عباس اراگچی نے گارڈیئن کو بتایا کہ فی الحال تہران کا ساٹھ فیصد جوہری افزودگی سے آگے بڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

یاد رہے کہ ایران اور اور بڑی طاقتوں کے درمیان سال 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران کو اس کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں مغربی پابندیوں میں چھوٹ دینا شامل تھا تاکہ تہران کو جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے حصول سے روکا جا سکے۔

ایران مسلسل جوہری ہتھیاروں کے حصول کے ارادے سے انکار کرتا رہا ہے۔

تہران تین یورپی حکومتوں کے ساتھ اپنے پر تنقید کے بعد جلد ہی مذاکرات کے لیے بیٹھنے پر ایسے وقت میں رضامند ہوا ہے جب حالیہ امریکی انتخابات میں کامیاب ہونے والے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں واپس آنے سے چند ہفتے دور ہیں۔

اپنی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ نے 2015 کے معاہدے کے نافذ ہونے کے تین سال بعد امریکہ کو یکطرفہ طور پر اس سے علیحدہ کر لیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے ایران پر دوبارہ بھاری پابندیاں عائد کرنے پر توجہ مرکوز کی تھی۔

امریکہ کی طرف سے اس معاہدے کو ترک کرنے کے بدلے میں تہران نے اس معاہدے پر عمل در آمد کو سست کر دیا اور اپنی یورینیم کی افزودگی کی سطح کو 60 فیصد تک بڑھا دیا – خیال رہے کہ ایٹم بم بنانے کے لیے 90 فیصد یورینیم پیدا کرنے کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔

Share This Article