بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں گذشتہ روز پاکستانی فورسز کی نہتے دھرنا مظاہرین پر حملے کے بعدبی وائی سی کے گرفتار ولاپتہ قائدین میں ڈاکٹرصبیحہ بلوچ کو رہا کردیا گیا۔جبکہ سمی دین و شاہ جی تاحال لاپتہ ہیں۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کی رہائی کی تصدیق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کو عوامی دباؤ اور مزاحمت کے بعد آج رہا کر دیا گیا ہے۔ تاہم سمّی دین بلوچ اور ثبغت اللہ بلوچ کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سمّی دین بلوچ اور ثبغت اللہ شاہ سے کل صبح سے کوئی رابطے نہیں ہو پایا ۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر دھرنے سے 200 سے زائد شرکاء کو گرفتار کیا گیا ہے، اور گرفتار افراد کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں دی جا رہی ہیں۔
بی وائی سی کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز بلوچ راجی مچی کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن میں سی ٹی ڈی نے بی وائی سی کے رہنماؤں کو دیگر شرکاء کے ساتھ زبردستی اغوا کر لیا۔ اغوا ہونے والوں میں سمیع دین بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور صبغت عبدالحق بلوچ شامل ہیں۔ ان کے اغوا کو ہزاروں پرامن مظاہرین نے دیکھا۔ انہیں اغوا کرنے سے پہلے فورسز نے انہیں مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا، پھر انہیں گھسیٹ کر اپنی گاڑیوں تک لے گئے۔
بیان میں کہا گیا کہ لاٹھی چارج برداشت کرتے ہوئے ان کی حالت بگڑ گئی۔ سی ٹی ڈی اور ریاستی ادارے ان کی جان کو خطرے میں ڈال کر اغوا کی تردید کر رہے ہیں۔ سمیع دین اپنے اغوا سے پہلے تیز بخار میں مبتلا تھی اور اسے فورسز نے بے دردی سے پیٹا تھا۔ ہم اس کی صحت کے بارے میں فکر مند ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کے ٹھکانے کا انکشاف نہ کرنا بہت سے سوالات اور اندیشوں کو جنم دیتا ہے کہ ریاست انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ہم انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی وحشی قوتوں کے خلاف کارروائی کریں۔