شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ – قسط۔7

ایڈمن
ایڈمن
21 Min Read


قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔7
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)

(ساتویں قسط)

سیاسی سوچ کو سبوتاژ کرنے والوں کے خلاف آپ کی جد وجہد اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تقسیم۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے قیام سے لیکر آج تک بلوچ قوم کی سب سے مقبول تنظیم رہا ہے۔ بلوچ سماج میں بلوچ سیاسی پارٹیاں آج تک وہ مقام حاصل نہیں کر پائے جو شرف اس طلباء تنظیم کو حاصل ہوا۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی اس مقبولیت اور عوام میں پذیرائی وجہ سے ہر دور میں استحصالی قوتوں کا سامنا کرنا۔ ایک جانب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو ریاست نے نشانے پہ رکھا جہاں تنظیم کے بہت سے سارے کارکنان ریاستی جبر کی وجہ سے شہید بھی ہوچکے ہیں اور دوسری جانب ریاستی سوچ کے عامل بلوچ قوم پرستوں نے بھی اسے متنازع بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جیسے کبھی انہیں پارلیمنٹ کا لالچ تو کبھی سرکاری نوکریوں کو ہی ان کارکنان کی منزل بنانے کے لیے طلباء کی غلط رہنمائی۔ جیسے80 ء کی دہائی میں جہاں ایک جانب70ء کی دہائی میں چلنے والی بلوچ مسلح تحریک اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا جس کا فائدہ اٹھا کے مراعات یافتہ طبقہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اپنے مفادات کی تکمیل کا سب سے اہم ذریعہ گردانتے تھے۔اسی لیے بلوچ طلباء میں سیاسی علم و آگہائی کی بجائے ذاتی مفادات کے تکمیل کی سوچ زیادہ تر دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں سیاست کا مقصد ذاتی تحفظ، داخلہ اور نوکری حاصل کرنا رہ گیا تھا۔ان حالات کو ختم کرنے اور بلوچ قوم کو ایک روشن مستقبل کی نوید سنانے شہید فدا احمد بلوچ نے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ بنایا۔شہید غلام محمد بلوچ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ بلوچ طلباء کو ایک انقلابی جماعت کی ضرورت ہے۔

انقلابی جماعت نہ ہونے کی وجہ سے ہی بلوچ طلباء قومی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات اور خواہشات کو ترجیح دے رہے ہیں اگر انہیں قومی جماعت مل جائے جو بلوچ اوربلوچستان کی ہی نمائندگی کرے تو یقیناً بلوچ طلباء سیاسی عمل میں زیادہ متحرک ہونگے۔ پھر جب شہید فدا احمد بلوچ نے پارٹی کا خاکہ بنایا تو آپ کو امید کی کرن نظر آئی اس لیے آپ نے کھل کر بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کی حمایت کی۔لیکن وقت نے شہید فدا احمد بلوچ کو موقع ہی نہیں دیا کہ وہ بلوچ قوم کو منزل کی جانب لے کے چلے۔ شہید فدا احمد کی شہادت کے بعد بلوچ قوم پھر سے اندھیر ی رات کے مسافروں کی طرح سرگرداں تھے۔ لہذا ان حالات میں بھی جہاں ایک جانب ریاست تنظیم کو اپنے نشانے پہ رکھا تھا اور دوسری جانب نام نہاد قوم پرست تقسیم کے عمل کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کررہے تھے ان حالات کے مدِ نظرجہاں آپ یہ جان چکے تھے کہ یہ مفاد پرست عناصر اپنی سوچ کو پایہ تکمیل تک پہنچا کے دم لینگے لہذا آپ نے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کے تمام مکاتبِ فکر سے روابط رکھتے ہوئے بلوچوں کی یکجہتی اور آنے والے دنوں میں ایک منظم جدوجہد کی تیاری شروع کی۔


یہاں ایک واقعہ کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہید غلام محمد بلوچ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سیکر ٹری جنرل تھے۔ پارٹی میٹنگ ہورہی تھی اس میٹنگ میں مولا بخش دشتی، ڈاکٹر حئی، ایوب جتک، اور بہرام خان کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ اس دوران شہید غلام محمد بلوچ نے پارٹی قائدین سے جواب طلب کیا کہ” آپ لوگ یہ بتائیں کہ خلیجی ریاستوں میں مقیم بلوچوں سے بلوچ قومی تحریک آزادی کے مسلح ونگ کے نام پر جو پیسہ آپ لوگ بٹوررہے ہیں وہ کہاں اور کس مد میں استعمال ہوا اور ہورہا ہے کیونکہ اس بات سے میں بھی آگاہ ہوں کہ آپ لوگوں کے پاس نہ کوئی ایسا واضح پروگرام ہے اور نہ ہی کوئی گوریلہ فورس۔تو وہ پیسے جہاں خلیج میں مقیم بلوچ اپنے اہل و عیال کا پیٹ کاٹ کر آپ لوگوں کو دے رہے ہیں وہ کس مد میں آپ لو گ استعمال کررہے ہیں۔ میں بحیثیت بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا سیکرٹری جنرل تنظیم کو اس بات کا جواب دہ ہوں لہذا انہیں جواب دینے کے لیے مجھے آپ لوگوں کا جواب چاہیے۔کیونکہ آپ حضرات بلوچ توقومی تحریک اور نظریہ شہید فدا جان سے اب منحرف ہو کر قبضہ گیر ریاستی پارلیمانی سیاست اورپارلیمنٹ کی رونقوں اور آسائشوں کو اپنا مقصد بناکر بیزنجو کے فلسفہ پر پاکستان کی فریم ورک میں شمولیت اختیار کرچکے ہو اور یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔


آپ لوگوں کے اس عمل سے اب خلیجی ممالک میں مقیم بلوچ مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہیں تنظیمی کارکنان کے ساتھ ساتھ ہمیں انہیں جواب دے کر اصل صورتحال سے آگاہ کرنا ہے۔”مفاد پرستوں کا یہ گروہ آپ شہید غلام محمد بلوچ کو اپنے غیر منطقی دلائل سے قائل نہ کرسکے۔ان کی یہ کوشش رہی کہ اس مسئلے کو زمین بوس کرنے کے لیے قوم کو ہی ابہام کا شکار بنایا جانا چاہیے۔ لہذا اس کے بعد انہوں نے قوم کے ذہن کو منتشر کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے رہے۔ ان کے انہی اعمال کی وجہ سے قوم میں مایوسی پھیلتی گئی جس کا ثمر قوم کوپہلے بلوچستان نیشنل موومنٹ اور بعد میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے دو لخت ہونے کی صورت میں ملا۔


اس گمبیر صورتحال کا مقابلہ کرنا یقیناً ایک بڑے امتحان سے کم نہیں تھا لیکن آپ نے انتہائی ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا۔ اگر اس دوران کسی انقلابی پارٹی کا وجود ہوتا تو حالات اس نہج پہ نہیں پہنچتے۔چونکہ بلوچ سیاست سیاسی سوداگروں کی بھینٹ چڑھ چکا تھا تو آپ کے لیے بھی ان سیاسی سوداگروں سے دوری ایک صبر آزماء مرحلہ تھا۔آپ یہ جانتے تھے کہ پارٹی میں بہت سارے ایسے کارکن ہیں جو بلوچ قوم کی آزادی کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ان کے پاس اختیارات نہیں۔تو ان حالات میں اگر پارٹی سے اپنی راہ جدا کیا جائے تواس کا نقصان آنے والے دنوں میں قوم کو ہی سہنا پڑیگا۔ لہذا آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت پارٹی کے انہی عناصر کی ہمرائی میں ہی قوم کی بقاء ہے اور وقت آنے پر کوئی مثبت فیصلہ کیا جائے گا۔اسی لیے آپ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے فراغت کے بعد بھی بلوچستان نیشنل موومنٹ کا حصہ بن گئے۔جہاں آپ نے پارٹی قائدین سے مایوس ہوکر عام کارکنوں پہ اپنی توجہ صرف کی۔اب آپ کو یہ پختہ یقین ہوچکا تھا کہ یہ منکرین کبھی راہ راست پہ آ نہیں سکتے۔آپ کی اس سوچ سے بلوچستان نیشنل موومنٹ کے مفاد پرست عناصر بے بہرہ نہیں تھے اسی لیے انہوں نے آپ کو مراعات اور ایوانوں کی زینت بنانے کے ساتھ ساتھ ہر وہ گُر استعمال کیا جس سے آپ کی سوچ میں بدلاؤ آسکے لیکن وہ اپنے ان مذموم مقاصد میں ناکام رہے۔ اور آپ ثابت قدمی سے بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے لیے تیاری کرتے رہے۔


بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جب تقسیم کا شکار ہورہا تھا تو اس دوران آپ (شہید غلام محمد بلوچ) سردار عطاااللہ مینگل سے ملنے اور اس مسئلے کو حل کرنے ان کے پاس گئے۔آپ کو اس بات کا ادراک تھا کہ اگر آج یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو ممکن ہے کہ ہم پھر سے 87ء کی تاریخ نہ دہرائیں جہاں کہور خان اور اس کے ہمنواؤں نے بلوچ طلباء تنظیم کو دولخت کردیا تھا جس کی وجہ سے آپسی نفرت اپنی انتہاء کو چھورہی تھی۔لہذا قومی یکجہتی کے لیے آپ نے یہ قدم اٹھایا۔جہاں آپ نے اس مسئلے پہ انتہائی سنجیدگی سے سردار صاحب سے گفتگو کی اس کے اثرات پہ روشنی ڈالی جو آنے والے دنوں میں بلوچوں کو مزید تقسیم کا شکا کرسکتا ہے۔لیکن سردار صاحب پہ آپ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ انہوں نے اپنی انا پرستی کا واضح ثبوت دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ” کیا میں جو کہ ایک سردار ہوں،میں آپ لوگوں کی تنظیم کو توڑنا چاہتا ہوں، مجھے آپ کی تنظیم سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی میرے ساتھ اس موضوع پہ مزید بات کریں۔تو آپ(شہید غلام محمد بلوچ) نے کہا کہ سردار صاحب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک قومی تنظیم ہے اس کی شان ہم سب سے بڑی ہے لہذا میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اگر ہم آج بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو بچانے میں کامیاب ہوگئے تو کل اسی تنظیم کی وجہ سے قوم بھی یکجہتی کا مظاہرہ کریگی لیکن یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ طلباء تنظیم کو منظم اور متحد شکل میں کون دیکھنا نہیں چاہتا۔

سردار صاحب بلوچ طلباء تنظیم ہی نہیں بلکہ بلوچ ہر دور میں وہ چاہے انگریز سرکار کا دور ہو یا پاکستانی قبضہ کے بعد،تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتا آرہا ہے آج جب ہمارے پاس موقع ہے تو ہم کیوں قوم کو یکجاء کرنے کی کوششوں سے بھاگ رہے ہیں۔ماضی میں بھی جب آپ لوگ جلاطنی کی زندگی گزاررہے تھے تو بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آپ لوگوں کی وجہ سے ہی تقسیم ہوا کیونکہ جلاوطنی کے بعدآپ لوگوں نے ہی بلوچ طلباء تنظیم کومنظم ہونے کے لیے کوئی پلیٹ فارم مہیاء نہیں کیا بلکہ اپنی خاموشی سے بلوچ قوم میں مایوسی کو ہوا دیتے رہے۔ لیکن آج موقع ہے، نہیں تو آنے والے دنوں میں بلوچوں پہ جو کچھ بیتے گا اس کے ذمہ دار آپ لوگ ہی ہونگے۔

اتنا کہہ کر آپ وہاں سے رخصت ہوئے۔اور اس کے چند دن بعد بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن دوحصوں میں تقسیم ہوگیا،تنظیم کا وائس چیئرمین ایڈوکیٹ رحیم بلوچ جو آپ کی کیبنٹ کا رکن تھا آپ سے علیحدہ ہوکر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن(مینگل) گروپ کی بنیاد رکھ دی۔ بلوچ سٹوڈنٹس ارگنائزیشن کا سفر۔
1993ء میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مرکزی کونسل سیشن منعقد ہوا۔اس کونسل سیشن کے ساتھ ہی آپ کی سیاست کا پہلا دور(دورِ طالب علمی) اختتام پذیر ہوا۔اس کونسل سیشن میں واحد بلوچ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا چیئرمین منتخب ہوئے۔یہی وہ کونسل سیشن تھا جہاں آج کا عظیم بلوچ قومی رہنماء اور گوریلہ کمانڈر ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ پہلی مرتبہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کیبنٹ کا حصہ بنے جہاں وہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات منتخب ہوا۔
آپ نے سیاست کا آغاز1973ء74ء میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا اور 1993ء میں آپ (شہید) کی سیاست کا پہلا دوراسی تنظیم کے پلیٹ فارم پہ ہی اختتام پذیر ہوا۔


اس بیس (20) سالہ دورِ سیاست میں آپ نے سیاسی میدان میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھے۔یہی وہ دور تھا جب قبضہ گیر ریاست کا ایک ٹکڑا(بنگلہ دیش) اس سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوا، یہی وہ دور تھا جہاں بلوچ قوم نے پاکستان کے خلاف 70 ء کی دہائی میں شدید مزاحمت کی، اسی دور میں آپ نے بلوچ قوم کو جلاوطنی کی زندگی گزارتے اور واپس انہیں دیار غیر کی صعوبتیں برداشت کرکے بلوچستان آتے بھی دیکھا، یہی وہ دور ہے جہاں بلوچ قوم کبھی ریاست کی باجگزاری قبول کرنے تو کبھی ریاست کے خلاف نبرد آزماء ہوتا دیکھائی دیتا ہے، آپ نے اپنے اس دورِ سیاست میں بلوچ سٹوڈنٹس آٓرگنائزیشن کو سرداروں اور زر داروں کی بھنیٹ چڑھتے دیکھا،اسی دور میں آپ نے بلوچوں کو بلوچوں کا لہو بہاتے دیکھا،(کوہستان مری کے واقعات جس وقت شہید اکبر خان بلوچستان کا گورنر تھے)اورجہاں عظیم بلوچ لیڈر شہید فدا جان اپنوں کی حرص کی وجہ سے شہیدہوگئے۔آپ کے اسی سیاسی سفر میں غیر بلوچ محکوموں کا قتل عام روکنے کے لیے شہید حمید بلوچ کا واقعہ پیش آیا جہاں ریاست بلوچوں کو ظفاری محکوموں کا قتل عام کے لیے کرائے کے سپائیوں کے طور پہ استعمال کرنا چاہتے تھے۔آپ نے بلوچوں کو غیر منظم انداز میں سیاست کرتے دیکھا جہاں نہ کوئی پارٹی اور نہ کوئی ایسا رہنماء جو منزل کی جانب رہنمائی کرے،پھر آپ نے منظم اندازِ سیاست کی ایک جھلک بھی دیکھی اور رہنماء بھی شہید فدا احمد بلوچ کی صورت میں دیکھا، پھر اس رہنماء کی شہادت کا واقعہ بھی ، آپ نے اس دور میں ایک جانب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو دو مرتبہ دولخت ہوتے دیکھا تو دوسری جانب آزادی کے نظریے سے لوگوں کو منحرف اور ایک انقلابی پارٹی کو جس کا مقصد ہی وطن اور قوم کی آزادی تھی اسے سرداروں اور زرداروں کے ہوس کا نشانہ بنتے دیکھا۔
ان تما م حالات میں آپ کی مستقل مزاجی، حوصلہ اور اس میں نظریے کا پرچار اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ میں وہ تمام صلاحیتیں موجود تھی جو کسی حقیقی انقلابی لیڈر کا ورثہ ہوتا ہے۔
نشیب و فراز کے اس دور سے گزرنے کے بعد آپ اس مقام پہ پہنچ چکے تھے جہاں قوم کے لیے نجات کی راہ تلاش کرنا اب کوئی مشکل مرحلہ نہیں تھا۔ سیاست کے وہ تمام اصول جن پہ کسی قوم کو منظم انداز میں اپنی منزل کی جانب لے جانے کی جدوجہد کی جاتی ہے ان سے آپ واقف ہوچکے تھے۔لیکن یہ وہ پُر آشوب دور تھا جہاں بلوچ قوم پرستی کے دعویدار اپنا مقصد کو بھول چکے تھے اور وہ فقط ریاستی ایماء پہ کام کررہے تھے۔یہ وہ دور تھا جہاں بلوچوں میں کوئی انقلابی پارٹی وجود نہیں رکھتا تھا۔لہذا آپ نے بلوچوں کو اس جہنم سے نکالنے کے لیے بلوچستان نیشنل موومنٹ میں اس امید پہ شمولیت اختیار کی کہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں خواب غفلت کا شکار یہ قوم بیدار ہوجائے۔


یہ وہ دور تھا جہاں بلوچ سماج میں نواب خیر بخش مری کے علاوہ کوئی اور ایسی ہستی ہی نہیں تھی جس کی پیروی کی جاسکے لیکن اسے بلوچ کی بد قسمی کہا جاسکتا ہے کہ نواب صاحب نے کبھی پارٹی سیاست کو فروغ دینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر اس دور میں نواب صاحب جو کہ بلوچ قوم میں سب سے زیادہ قابلِ اعتماد ہستی تھی وہ کوئی سیاسی پارٹی تشکیل دیتا تو یقیناً بلوچوں کا وہ گروہ جو آزادی کا خواب دیکھ رہے تھے نواب صاحب کی ہمرائی میں سیاست کو عبادت کا درجہ دے کے اس راہ کے راہی بن جاتے۔ حقیقی پارٹی نہ ہونے کے سبب بلوچوں کا نظریاتی طبقہ یا تو خاموش تھا یا بحالتِ مجبوری یا آزادی کی امید پہ دیگر سیاسی پارٹیوں میں بلوچ قوم کے حقوق کے لیے جد وجہد کررہے تھے۔شہید غلام محمد بلوچ بھی اسی امید پہ بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرتا ہے۔شہید غلام محمد بلوچ چونکہ ایک زیرک اور دور اندیش رہنماء تھا اسی لیے انہوں نے بہت جلد پارٹی قائدین کے عزائم بھانپ لیے لہذا اس کے بعد پارٹی میں رہتے ہوئے انہوں نے پارٹی میں شامل کارکنوں کی قومی سیاسی سوچ کے مطابق تربیت شروع کی۔
حالانکہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے فراغت کے بعد جب آپ نے اپنے ہم خیال دوستوں سے صلاح و مشورہ کیا تو ان میں سے اکثر نے آپ کو یہ رائے دی کہ اپنی الگ جماعت بنائی جائے کیونکہ یہ عناصر نظریہ قوم پرستی سے ہٹ کے ریاست کے گماشتے بن چکے ہیں اور قوم پرستی کے نام پہ فقط قوم کا استحصال کررہے ہیں۔ لیکن آپ نے دوستوں کو یہ کہہ کر اطمینان دلایا کہ ہم ان کے ساتھ ہی کام کرینگے کیونکہ آج بھی ان کے ساتھ بہت سارے ایسے کارکنان ہیں جو نظریہ فدا کے حامی ہیں۔ اگر ہم نے ان سے راہ الگ کرلی تو انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ہم الگ پارٹی بھی بناسکتے ہیں لیکن آج قوم اس حالت میں ہے کہ ان سیاسی شاطروں نے تقسیم در تقسیم کے عمل سے قوم کو مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے لہذا الگ پارٹی بنانے سے اس وقت قوم میں ہی مایوسی پھیل سکتی ہے۔ ہاں البتہ وقت آنے پر ہم یہ فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share This Article
Leave a Comment