قلم کا ”دھنی“شہید ساجد بلوچ -تحریر:۔ ڈاکٹر جلال بلوچ

0
518

جب علم اور ہنر کا ملاپ ہوتا ہے تو قلم اپنا اثر آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کی صورت میں چھوڑتا ہے۔یہ وہی روشنی ہے جس سے انسانی تہذیب پروان چڑھتی ہے، یہ وہی روشنی جس میں غلاموں کے لیے نوید آزادی کی بازگشت ہوتی ہے، یہ وہی روشنی ہے جس سے انسان تسخیر کائنات کو ممکن بناتا ہے۔

قلم ہی ہے جس سے علم ودانش اورانسانی تہذیب کا ارتقاء ہوتا ممکن ہوتاہے۔ وہ قلم ہی کی طاقت ہے جس کی بدولت انسان وحشیانہ زندگی سے نکل کر مہذب زندگی کی جانب گامزن ہوا۔ قران پاک کی پہلی وحی بھی قلم کی اہمیت کو لے کر نازل ہوئی۔قلم ہی ہے جس کی قسم رب کریم نے بھی کھائی۔یعنی سائنسی اور مذہبی دونوں نقطہ نگاہ سے انسان کی تعمیر و ترقی بنا قلم ممکن ہی نہیں۔ سماج کو تعمیر و ترقی کی راہوں سے آشنا کرنے والے اہل قلم ہی ہیں جن کی تعلیم و تخلیق سے اقوام اپنی منزل کی جانب محوسفر ہوتے ہیں۔

اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ عالم و جاہل مرتبے میں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔عالموں کا یہی مرتبہ سماج میں انہیں دوسروں سے امتیاز بخشتی ہے۔ جب غلام اقوام کا آزادی کی امنگ میں سفر کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں بھی سب سے منفرد مقام کے حامل اہل قلم گردانے جاتے ہیں، ان کے ہاتھوں قلم کا استعمال نہ صرف انہی کے سماج کی تقدیر بدلتی ہے بلکہ ان کے تحریر کردہ رہنما اصولوں کی بدولت دنیا کے دیگر محکوم اور مظلوم طبقات بھی اپنی راہوں کا درست انتخاب کرتے ہیں۔ قلم کی اہمیت سے آشناء افراد نہ صرف خود قلم کی بدولت اپنی قوم کی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں بلکہ ان کے قلم کی سیاہی جہد مسلسل کی ارتقاء کے لیے قلم کار بھی پیدا کرنے کا ضامن ہوتا ہے۔اہل قلم کی اسی سعی سے آج تک نہ صرف تاریخ زندہ ہے بلکہ انسانی زندگی میں جدت بھی اسی انسانی طبقے کی مرہون منت ہے۔

اہل قلم کی جدوجہد کے حوالے سے بلوچ جہد آزادی کی جب بات کرتے ہیں توہمیں کہیں عظیم ہستیاں اس صف میں مل جاتے ہیں جن میں شہید صباء دشتیاری، واجہ غوث بہار، شہید ماسٹر علی جان، شہید رحمت اللہ شاہین، شہید حمید شاہین، شہید علی شیر کرد، شہید رزاق گل، شہید حاجی رزاق، شہید نوروز بلوچ سمیت اور بہت سارے نام جن کی قلم نے قوم کے لیے حصول آزادی کے رہنماء اصول مرتب کیے، جن پہ آج کے جہد کار گامزن ہیں۔ دشمن اس بات کا بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ اگر قوت مخالف کی رہنمائی اہل علم و اہل قلم نے کی تو شکست یقینی ہے لہذا وہ اپنی شکست کے خوف سے اہل دانش کو راستے سے ہٹانے کی حتیٰ الوسع کوشش کر تی ہے۔دنیا کے دیگر معاشروں کی طرح دشمن نے بلوچ دانشوروں کو بھی راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ہمارے قوم کے بہت سارے عظیم پیامبر جسمانی طور پہ ہم سے جدا ہوگئے۔انہی اہل قلم میں ایک نام بلوچ قوم پرست صحافی ساجد بلوچ کا بھی ہے۔جنہوں نے اپنے قلم کی نوک سے دشمن کے عزائم عیاں کرنے اور قوم کو راہ حق دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ساجد بلوچ کا یہ متحرک انداز دشمن کی شکست کا سبب بن چکا تھا لہذا پہلے پہل اس نے ساجد پہ بلوچ سرزمین تنگ کیا جس کی وجہ سے ساجدجان دیار غیر میں مہاجرت پہ مجبور ہوا۔اور ایران کے راستے کے راستے یورپ جا پہنچا جہاں سویڈن جیسے فلاحی ریاست میں انہوں نے رہائش اختیار کرلی۔ گل زمین سے مہاجرت نے بھی ساجد کو اس کے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد سے پیچھے ہٹنے پہ مجبور نہیں کیا اور وہ بے خوف بلوچ قوم کی آواز بن کر دنیا کو بلوچ قومی مسئلے کی جانب ترغیب دیتا رہا۔ذاتی نمود و نمائش سے مبرا اس انقلابی(ساجد بلوچ) نے اپنے قلم سے تحریک کا ایسا بناؤ سینگار کیا جس کی نظیر بلوچ تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ساجد کی اسی جدوجہد کی بدولت تحریک کا پیغام حوصلہ افزاء حد تک دنیا کو پہنچتی رہی۔

شہید ساجد بلوچ کا دیار غیر میں اپنی قوم کے لیے یہ متحرک انداز دشمن کے لیے زہر ہلال سے کم نہیں تھا لہذا اس نے ساجد جان کو راستے سے ہٹانے کا مذموم ارادہ کیا۔دشمن کے مذموم عزائم سے بے خبر یا باخبر ساجد بلوچ قلم سے جدوجہد کرتا رہا۔بے خبر شاید نہ کہا جائے کیوں کہ ساجد جیسے دانشور کو اس بات کا یقیناً ادراک ہوا ہوگا کہ قومی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اور قومی مسئلے کو اجاگر کرنے کے سبب ایک نہ ایک دن وہ ضرور دشمن کے عتاب کا نشانہ بنے گا۔پر وہ وہ بے خوف اپنے قلم کو جنبش دیتا رہا جس سے نکلنے والی سیاہی نے قومی مسئلے کی جانب لوگوں کو آگہی دینے کا کام کیا۔

ساجد کو ابھی بہت سا کام کرنا تھا، ساجد نے جس مقصد کے لیے قلم اٹھایا تھا اسے اس کے ثمرات کا نظارہ بھی کرنا تھا، پر دشمن اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لاکر ساجد جان کو 2مارچ 2020ء کو سویڈن کے شہر اپسالہ سے جبری طور پر لاپتہ کرتا ہے اور 23اپریل 2020ء کوان کی لاش اپسالہ ندی سے برآمد ہوتی ہے۔ ساجد جان کی شہادت کے محرکات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کی قلم کے استعمال نے آئی ایس آئی کو اسے راستے سے ہٹانے پہ اکسایا بالکل اسی طرح جس طرح غالباً بارہ سے قبل بلوچ دانشور عارف بارکزئی کو آئی ایس آئی نے ناروے کے شہر اوسلو میں شہید کیا تھا۔ ساجد اپنے عمل میں دَھنوان تھا، ساجد جیسے داعیوں کا جنم صدیوں میں ہوتا ہے۔ہاں ان جیسوں کا جنہوں نے کبھی نام و مرتبے کی تمنا ہی نہ کیا ہو،ایک ایسی ہستی جس کے قلم کی طاقت کے سامنے دنیا کے بڑے سکندر سرنگو ں ہوتے ہوں، ایک ایسی ہستی جس کی طاقت سے دشمن اتنا خائف تھا کہ اس کی طاقت کو خاموش کرنے کے لیے انسانی اقدار سے عاری عمل پہ اتر آیا۔۔۔ایسی ہستی کو کیا نام دوں جنہیں تاریخ کبھی سقراط تو کبھی گلیلو کی شکل میں سامنے لاتا ہے اورکبھی سارتر کہہ کر پکارتا ہے۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں اپنے دیس کے سقراط اور سارتر کو کیا نام دوں؟ کیا نام دوں تجھے ساجد جان جو تو نے اپنے ہتھیار(قلم) سے قوم کو منزل و مقصد کی حقیقت سے آشناء کیا، کس

نام سے پکاروں اپنے ساجد کو جس کی تخلیق نے تحریک میں ایسا ارتعاش پیدا کیا جس کی لوح سے دیس کا ہر بشر مستفید ہوا اور ہوگا؟ اور کن القابات سے نوازہ جائے تجھے کہ تونے اپنی انفرادی جدوجہد سے ایک اجتماع کی تقدیر بدلنے کی ذمہ داری نبھائی۔
بہر حال میں تجھے چاہے کسی بھی درجے پہ رکھوں پر اہل قلم یہ ضرور تحریر کریں گے کہ ساجد ہی تھا جس نے قلم کی حرمت اور تقدس کا پاس رکھا۔۔۔ ساجد ہی تھا جس نے ہر مشکل گھڑی میں قلم کو سچائی اور حقائق کی جانب جنبش دی۔۔۔ساجد ہی تھا ہاں وہ ساجد ہی تھا جو قلم کا دھنی تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here