بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے تیرتیج میں گذشتہ دنوں 12 فروری کو پاکستانی فوج کے تشدد سے جان بحق ہونے والے ’محمد علی ولد دینار‘ کے حراستی قتل اور لاش کی عدم حوالگی کے خلاف آج بروزپیر کے روز تیرتج کے مکینوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ شہید کی لاش لواحقین کے حوالے کی جائے۔
مظاہرے میں بڑی تعداد میں خواتین اور مردوں نے شرکت کی۔
مظاہرین ریلی کی شکل میں قبرستان پہنچے جہاں گذشتہ رات کو حراستی قتل کے بعد فورسز نے ٹریکٹر کے ذریعے گڑھا کھود کر ’محمد علی‘ کی لاش دبائی تھی۔
علاقہ مکینوں نے مطالبہ کیا کہ انھیں لاش نکال کر مذہبی رسومات کی ادائیگی اور احترام کے ساتھ دفن کرنے کی اجازت دی جائے۔
علاقہ مکین کافی دیر تک اس جگہ موجود رہے لیکن انھیں محمد علی کی لاش قبر سے نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مظاہرین سے مذاکرات کے لیے اسسٹنٹ کمشنر شاھنواز بلوچ قبرستان آئے۔
مظاہرین نے ان سے کہا کہ ان کے ساتھ پاکستانی فوج جو ناروا سلوک کر رہی ہے اسے بند کیا جائے۔محمد علی اور ان کے بھائی ملا واحد بے قصور تھے جنھیں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ محمد علی کو فوج نے قتل کرکے لاش کی بھی بے حرمتی کی جو ناقابل برداشت ہے۔
جس جگہ محمد علی کو قتل کرنے کے کے بعد زمین میں گاڑھا گیا تھا وہاں لوگوں نے ان کے فاتحہ خوانی کی اور خواتین نے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی قبر پر’زرشانی‘ (پیسے نچھاور کیے) کی۔
مردوں کو پاکستانی فورسز کی طرف سے اجازت نہ ملنے پر خواتین نے اپنے ہاتھوں سے گڑھے سے مٹی ہٹا کر ’محمد علی‘ کی لاش نکالی۔جنھیں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے۔ ہم پر جانوروں کے نہیں انسانوں کے قوانین نافذ کیے جائیں کیونکہ ہم بھی انسان ہیں۔
انھوں نے مطالبہ کیا انسانی حقوق کے ادارے ہماری مدد کریں اور ہمیں تحفظ فراہم کریں۔