پاھار -سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ

ایڈمن
ایڈمن
14 Min Read

……پاھار……
سال 2020
200فرزندانِ بلوچستان قتل، 705لاپتہ
سال 2020میں 682فوجی آپریشنز میں 705 افرادلاپتہ،
200افرادقتل،1100سے زائد گھر نذر آتش

سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

سال2020 بلوچ قومی تاریخ میں ایک کٹھن سال ثابت ہوا،جہاں پاکستانی فورسز کی زمینی و فضائی خونی فوجی آپریشنز2020 کی آخری سورج غروب ہونے کے وقت بھی جاری تھیں۔

ہر سال کی طرح امسال بھی ادارہ سنگرنے مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اورپاکستانی فوج کی جنگی جرائم کی کارروائیوں کے اعدادوشمارمرتب کئے جو بلوچستان کے سرکاری پرنٹ میڈیا، آن لائن وسوشل میڈیااورمقامی افرادسے حاصل کئے گئے ہیں اور مصدقہ ہیں۔


ادارہ سنگر کے حاصل اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی فوج نے سال بھرمیں مقبوضہ بلوچستان میں 682 آپریشنز کیے، اور اسی سال705 بلوچ سیکورٹی فورسزکے ہاتھوں لاپتہ ہوئے۔


جبکہ 200 سو نعشیں برآمد ہوئیں۔اور122 بلوچ فرزند فوجی آپریشنز،خفیہ اداروں اورریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔اعدادوشمار کے مطابق60 لاشوں کے محرکات سامنے نہیں آ سکے اور18 نعشوں کی شناخت نہ ہو سکی۔
دوران آپریشن سال2020 میں پاکستانی فوج نے2200 سے زائد گھروں میں لوٹ مار کرتے ہوئے تمام اشیاء کا صفایا کیا اور1100 سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا۔


دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پاکستانی فورسز نے60 نئی چوکیاں بھی قائم کیں۔
اوردوران آپریشنز 4 ہزار سے زائد مویشیوں کو مارا گیا اور 2 ہزار سے زائد کو فورسزمال غنیمت سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔
اسی سال پاکستانی فوج نے بلوچستان بھر کے قدرتی جنگلات کو نذر آتش کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیاجن میں

دشت،بلیدہ،پروم،زامران،مند،جھاؤ گچک،مشکے اوربولان کے علاقے شامل تھے۔
ریاستی فورسز کے کارندوں نے ضلع کیچ میں تحصیل بلیدہ میں 3 اسکولز بھی نذر آتش کئے۔


سال 2020 میں 106 لاپتہ افرادر فورسز کی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے جن میں بیشتر وہ تھے جن کو اسی سال کے مختلف مہینوں میں لاپتہ کیا گیا تھا۔


سال2020 اپنی طلوع سے غروب ہونے تک بلوچ قوم کے لیے تباہ کن رہی،جہاں سال کی شروعات ریاستی بمباری و آپریشنز سے ہوتا ہوا سویڈن میں ساجد بلوچ کا قتل اور2020 کا خونی سورج کریمہ بلوچ کی شہادت بلوچ قومی تاریخ میں ایک اور خونی سال کا اضافہ کر گیا۔
ساجد بلوچ کی سویڈن میں گمشدگی اور قتل کے بعد آزادی پسند رہنما بانک کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں قتل نے بلوچ قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔جبکہ دنیا بھر کے مظلوم اقوام سمیت سماجی و انسانی حقوق کے کارکنوں کا احتجاج جاری ہے۔


کریمہ بلوچ چونکہ ایک موثر آواز تھیں اس لیے ان کو خاص و منظم حکمت عملی کے تحت شہید کہا گیا،جس پر مقبوضہ بلوچستان کا شاید ہی کوئی علاقہ گلی،کوچہ،گاؤں ہو جہاں احتجاج نہ ہوا ہو۔


یقینا کریمہ بلوچ کی شہادت بلوچ قوم کے لیے ایک ایسی نقصان ہے کہ جسکی تلافی ممکن نہیں البتہ مزاحمت،جدوجہد کی جس راہ کو کریمہ نے چنا،اب بلوچ قوم کے لیے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہی موقعہ ہے کہ انکی جہدمسلسل کو شعوری بنیاد پر اپنا اثاثہ بنائیں اور آزاد بلوچستان کی آزادی تک اس سفر کو جاری رکھیں۔


بانک کریمہ بلوچ نے بہت کم مدت میں انقلاب کی بلندیوں کو چھوا،اور دن رات محنت کی،انکی سرزمین سے عشق نے ان جومادر وطن کی بیٹی بنا دیا اور وہ درجہ ملا کہ شاید کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا۔
کریمہ بلوچ ایک انقلاب ثابت ہوئی اور انکی شہادت پر رد عمل نے دنیا اور قاتل ریاست پاکستان پر واضح کر دیا کہ کریمہ ایک سوچ و فکر کا نام ہے۔


گذشتہ دو عشروں میں بلوچستان میں پیہم جاری مظالم میں ہر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے بلوچ قومی نسل کشی کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی علاقہ ایسا باقی نہیں رہا کہ جس پر آتش و آہن نہ برسی ہو، لوگ اٹھائے نہ گئے ہوں، گھر نذر آتش نہیں کئے گئے ہوں۔ در حقیقت بلوچستان میں کوئی علاقہ اس آگ سے محفوظ نہیں ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر فوج او ر خفیہ ادارے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کر رہے ہیں۔ گھر بار، مال مویشی لوٹے جا رہے ہیں۔ ریاستی افواج، خفیہ ادارے اور فوج کے متوازی دہشت گرد ڈیتھ سکواڈ بلوچ قوم کے لئے اپنی ہی سرزمین پر زندگی کو دوزخ بناچکے ہیں۔ لوگوں کی نظروں کے سامنے ان کے جوان بچے اٹھائے جاتے ہیں اورلوگ بے بسی کا عملی نمونہ بن کر سالوں سے احتجاجی جلسوں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں اپنے پیاروں کی آس لئے نظر آتے ہیں لیکن شاذہی کسی کے آنکھ کا تارا بازیاب ہوتا ہے۔


یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے کہ پاکستانی بربریت سے بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ متاثرہ خاندان ناقابل بیان صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ صورت حال روز بروز گھمبیر ہو رہا ہے۔


ہم تاریخی مرحلے سے گزر رہے ہیں جہاں تاریخ ایک طرف دشمن کے مظالم یاد رکھے گی وہاں نام نہاد قوم پرستوں کی چیر دستیاں بھی ناقابل فراموش ٹھہریں گی۔ لاپتہ افراد کے انسانی مسئلے اور لواحقین کے جذبات کو دشمن کے سازباز اور سیاسی سودابازی کے لئے استعمال کرنا بھی پاکستان کے جنگی جرائم میں شرکت کے برابر ہے۔


لوگوں کو لاپتہ رکھنا سنگین جرم ہے۔ دنیا کا کوئی بھی قانون کسی شخص کو لاپتہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ہے لیکن بلوچستان میں یہ غیر انسانی عمل اپنی عروج پر ہے۔ یہ واضح جنگی جرم ہے۔ اس جرم پر پاکستان کو کٹہرے میں لانا چاہئے تھا لیکن لوگوں کی جذبات، مجبوریوں اورانسانی المیے کی قیمت پر پاکستان کو اس جرم سے بری الذمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاریخ جہاں پاکستان کا احتساب کرے گی وہاں ایسے کردار بھی تاریخ کی گرفت سے نہیں بچ پائیں گے۔


پاکستان جو ایک جانب بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے معاشی اوراپنی دوغلا پالیسیوں کی وجہ سے سفارتی حوالے سے آج زبوں حالی کا شکار ہے دوسری جانب محکوم اقوام کے تحاریک نے اس ملک کو مزید خستہ حال بنادیا ہے۔اس خطے میں آج بلوچ، سندھی اور کراچی کے مہاجر تو مکمل آزادی کا علم بلند رکھے ہیں جبکہ پشتون قوم میں بھی آج آزادی کی تحریک کی شدت محسوس کی جاسکتی ہے۔البتہ اب تک انہوں نے آزادی کی بابت کوئی سلوگن تو نہیں دیا لیکن پاکستان کی بربریت دیکھ کر آنے والے دنوں میں ان کے لیے بھی آزادی کے حصول کی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔


اس خطے کے اقوام بالخصوص بلوچ اور سندھی اپنے مقبوضہ ممالک کی جدوجہد میں ایسے مقام پہ پہنچ چکے ہیں جو انہیں کامیابی سے منزل کی جانب لے جانے کا سبب بنے گا۔ اور دوسری جانب پشتون اور کراچی کے مہاجراس ظلم و جبر کے خلاف متحرک ہوگئے ہیں۔ان اقوام کے یہ تحاریک پاکستان جیسی ریاست کی جڑیں اکھاڑ دیں گے بشرطیکہ ان کا تسلسل آنے والے دنوں میں برقرار رہے جس کی امید بھی کی جارہی ہے۔ان تحاریک میں شدت اور ان کی کامیابیوں سے پاکستان حواس باختہ ہوچکا ہے جہاں بلوچ، پشتون، سندھی اور مہاجرآئے روز اس کی جبر کا نشانہ بن رہے ہیں۔


سال2020 میں جہاں ملک نازسمیت درجنوں بلوچ فرزند شہید کیے گئے تو دوسری جانب بلوچ قوم نے دشمن کو اس مظالم کے خلاف للکار کر رکھ دیا۔اسی طرح میجر نورا سے لے کر دیگر سرمچار شہیدوں نے بھی قابض پاکستانی فوج کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔
واقعہ ڈنک کیچ کے بلوچ ماں شہید ملک نازاورننھی برمش کے بہتے لہو نے بلوچستان کو ایک مرتبہ عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ اسی طرح حیات بلوچ کو قابض فوج نے انکے والدین کے سامنے گھسیٹ کر یکے بعد دیگرے 8 گولیوں سے بھوند ڈالا۔سوشل میڈیا میں وائرل شہید حیات بلوچ کے لاش کے ساتھ انکے والدین کی فوٹو نے پورے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا مگر قابض اور اس کے حواری پارلیمانی لوگوں کو ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا۔


حیات بلوچ کی لاش کے سراہنے بیٹے والدین کی تصویر نے شاید عرش کو ہلا کر رکھ دیا،آسمان کی جانب ماں کی فریاد کرتی آہیں،باپ کے اپنے پیارے بیٹے کے ماتھے کو چھومنے نے پورے بلوچ قوم کو جھنجوڑ کر رکھنے کے ساتھ،حیات نے اپنی لہو سے قوم کو پیغام دیا کہ تم غلام ہو! صرف غلام ہو۔


حیات بلوچ شہادت،ڈنک واقع نے بلوچستان بھرمیں احتجاجی لہر کو جنم دیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ بلوچ سماج ان ریاستی کارندوں سے تنگ آ چکی ہے،اور اب انہیں کسی سیاسی پشت پناہی کی ضرورت نہیں۔قوم کا اس طرح یک مشت ہو کر احتجاج کرنا ایک اچھی پیش رفت ہے اور ایسے سلسلے اندر کی خوف کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مگر سیاسی جماعتیں آوازبلند کرتی عوام کو منظم کرنے میں مکمل ناکام ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا سیاسی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔


بلوچ فدائین کے ٹارگٹ حملوں نے بلوچ قومی آزادی کی جہد میں نئی روح پھونک دی ہے۔یقینا نیشنلزم اور قومی آزادی کے جذبے سے سرشار بلوچ نوجوانوں کی قربانیاں بلوچ قوم کے روشن مستقبل کی ضامن ہیں۔
پاکستان کی معیشت بلوچ قوم کی 72 سالہ استحصال اور نسل کشی پر کھڑی ہے اور کراچی اسٹاک ایکسچینج اسی استحصالی معیشت کی

ایک بنیاد اور علامت ہے۔ مجید بریگیڈ کے فدائین نے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی پر وار کرکے یہ پیغام دیا کہ جو معیشت بلوچوں کی لوٹ کھسوٹ اور خون کی قیمت پر دشمن تعمیر کرتارہا ہے، اسے پاکستان جتنا محفوظ سمجھتا ہو، بلوچ سرمچار اسے کہیں بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت اور سکت رکھتے ہیں اور اسکی کمر توڑ سکتے ہیں۔
پاکستان اپنی جنگی جرائم کی وجہ سے نہ صرف ہمسایہ ممالک،اس خطے بلکہ دنیا کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔ پاکستانی فوج کی جنگی جرائم کے بلوچستان میں کئی چہرے ہیں،جہاں بلوچ فریڈم فائٹرز میدان جنگ میں دشمن سے بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں تودشمن فوج انکی لاشوں کی بے حرمتی کرتی ہے۔


لیکن پاکستانی فوج کی جنگی جرائم پر دنیا سمیت ہمسایہ ممالک بھی خاموش ہیں۔ مقبوضہ بلوچستان میں عالمی میڈیا کی پہنچ دور کی بات ہے خود پاکستانی میڈیا کو رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے،اسی لیے وہاں جاری ریاستی جنگی جرائم کو دنیا کے سامنے لانے نہیں دیا جاتا۔
ریاستی جنگی جرائم کے مقبوضہ بلوچستان میں کئی اشکال ہیں،دوران آپریشن خواتین و بچوں کو لاپتہ کرنا،خواتین کی آبروریزی،نوجوانوں کو اغوا انکے ساتھ جنسی زیادتیاں،دوران آپریشن گھروں میں لوٹ مار،حراستی قتل عام،گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کھلے عام استعمال،بمباری،مال مویشیوں کو اُٹھا کر لے جانا وغیرہ وغیرہ۔


ان جنگی جرائم میں پاکستانی فوج کے اور بھی چہرے ہیں،لوگوں کو اغوا کرکے ان سے تاوان مانگا جاتا ہے ایسے درجنوں شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔


واضع رہے کہ بلوچستان میں میڈیا پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی کنٹرول کے باعث پاکستانی فوج مکمل طور پر بے لگام ہوچکی ہے اور وہ کسی بھی عالمی انسانی و جنگی قوانین کو خاطر میں لائے بغیر جنگی جرائم پر اتر آئی ہے۔ ٭٭٭

TAGGED:
Share This Article
Leave a Comment