انسانی حقوق کے عالمی اداروں ایمنسٹی انٹرنیشنل اورانٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نے اپنے جاری کردہ پریس ریلیز میں بلوچستان و پاکستان بھر میں بلوچ طلباء کی مسلسل جبری گمشدگیوں کی رپورٹوں پر شدید تشویشناک کا اظہار کرتے ہوئے اسے منظم نسلی مہم قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی اداروں ایمنسٹی انٹرنیشنل اورانٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے الگ الگ پوسٹ میں کہا ہے کہ بلوچستان اور پاکستان بھر میں بلوچ طلباء کی مسلسل گمشدگی کی تشویشناک رپورٹیں بلوچ طلباء کو منظم نشانہ بنانے کے انداز کی نشاندہی کرتی ہیں۔
مذکورہ اداروں کا کہنا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی کی طالبہ ماہ جبین بلوچ 29 مئی 2025 سے لاپتہ ہے، اس سے قبل 24 مئی کو ان کے بھائی یونس بلوچ کو سیکیورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کردیا تھا۔
کوئٹہ میں مظاہروں کے بعد پاکستانی فوج کی زیرقیادت حکومت کی طرف سے بلوچ طلباء کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا ہے، جہاں حکام نے ممتاز پرامن آواز ماہ رنگ بلوچ سمیت متعدد کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ ایک الگ واقعے میں، کراچی یونیورسٹی کے قانون کے طالب علم جاوید مسافر بلوچ کو مبینہ طور پر 23 اپریل کو ان کے گھر پر پولیس اور انسداد دہشت گردی کے چھاپے کے دوران لے جایا گیا تھا۔ ایک اور طالب علم، گہرام اسحاق کو 24 اپریل کو کوئٹہ کے سول اسپتال کے باہر سے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کسی کو بھی نہیں دیکھا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی ان چھاپوں اور اس کے نتیجے میں بلوچ طلباء کی گمشدگیوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نے اپنے الگ الگ پوسٹ میں پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ان جبری گمشدگیوں کی فوری، شفاف تحقیقات شروع کریں۔ طلباء کے مقامات کا انکشاف کریں اور انہیں غیر مشروط طور پر رہا کریں۔ مجرموں کو منصفانہ ٹرائل میں احتساب کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت پاکستان کے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔