ہمارے ایک کمیونسٹ دوست نے پاکستانی سوشل میڈیا کے بعض افراد کے حوالے سے "سوشل میڈیا اسٹبلشمنٹ” کی اصطلاح وضع کی ہے ہمارے کوئٹہ نشین بلوچ دوست نے قبل ازیں ان افراد کو "سوشل میڈیا سپر اسٹار” کے خطاب سے یاد کیا تھا۔
ان دوستوں کے مطابق پاکستانی سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بننے والے بیشتر ایشوز اسی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں، اس گروہ میں شامل افراد کی فین فالونگ چوں کہ بڑی ہوتی ہے جو انہیں ایک طرح سے طاقت فراہم کرتی ہے اس لیے اس اسٹبلشمنٹ کی بات فوراً سوشل میڈیا کا اہم ترین ایشو بن جاتا ہے۔
سوشل میڈیا اسٹبلشمنٹ کی ہیئت ترکیبی عین وہی ہے جو پاکستان کی سول و عسکری اسٹبلشمنٹ کی ہے، اس گروہ کے بیشتر اراکین کا تعلق شہری پنجاب کی مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے، اس کے بعد بالترتیب شہری سندھ اور چند ایک شہر نشین پشتون مڈل کلاس اس گروہ کے ارکان ہیں، اسی وجہ سے اس اسٹبلشمنٹ کی جانب سے خصوصا شہری پنجاب اور عموماً شہری سندھ کے غیر عوامی مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں،
جیسے کہ،کرنل کی بیوی”، "ٹھیکے دار کی بیٹی”، "زمین کا ساکن ہونا”، "عورت مارچ”، "جاپان جرمنی کی ہمسائیگی”، "سنتھیارچی الزامات”، "اقبال کے اشعار”، "بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کا قتل”، "کورونا وائرس”، "مذہب بیزاری”، "مذہب کی تبلیغ”، "نواز شریف کی بیماری”، "زرداری کرپشن” وغیرہ وغیرہ۔
ان کے اٹھائے گئے ایشوز چوں کہ بڑی فین فالونگ کی وجہ سے جلدی پھیل کر اہم ایشو کا روپ دھار لیتے ہیں اس لیے سوشل میڈیا کے اہم ویب سائٹس جیسے "ہم سب”، "ایک روزن” اور "مکالمہ” وغیرہ پر بھی انہی معاملات پر کالم پر کالم لکھے جاتے ہیں، جیسے "ہم سب” کے مدیر عدنان کاکڑ گزشتہ ہفتے یہ فرماتے نظر آئے کہ "کرنل کی بیوی پر لکھے گئے مضامین کی برسات ہورہی ہے۔
بلوچستان، دیہی سندھ خصوصاً اور پشتونخواہ عموماً ان کی راڈار پر نظر نہیں آتے، پشتون تحفظ موومنٹ کی احتجاجی تحریک کے اوائل میں اس کو اسٹبلشمنٹ کے پشتون اراکین اٹھا کر مین اسٹریم میں لے آئے، ریاست نے جب سخت ردعمل دکھایا تو اسٹبلشمنٹ بھی پیچھے ہٹ گئی، بعض طاقت ور سوشل میڈیا صارفین اپنی سابقہ حمایت پر کفِ افسوس ملتے نظر آئے یوں رفتہ رفتہ پی ٹی ایم بھی نظرانداز شدہ تحریک کا روپ دھار گئی
۔
بلوچستان میں جاری حالیہ احتجاجی لہر پر بھی اس اسٹبلشمنٹ کا عین وہی رویہ نظر آیا جو پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا اور مین اسٹریم سیاست کا ہے، یعنی مکمل طور پر نظر انداز کرو۔ سوشل میڈیا اسٹبلشمنٹ بظاہر اینٹی اسٹبلشمنٹ ہے لیکن بلاتخصیص رائٹ اور لیفٹ بلوچستان کے معاملے میں اس کی پالیسی پاکستان کے عسکری اسٹبلشمنٹ کے مفادات سے ہم آہنگ ہے، طاقت ور سوشل میڈیا صارفین کی نظر اندازی کی وجہ سے بلوچستان میں جاری عوامی احتجاجی تحریک پاکستان کے مرکزی سوشل میڈیا میں موضوعِ بحث نہیں بن سکی، یہ محض بلوچوں اور ان بلوچوں کے چند ایک غیر بلوچ دوستوں تک محدود رہی، اسی وجہ سے نہ "ہم سب” پر کوئی کالم نظر آیا اور نہ ہی "مکالمہ”، "ایک روزن” یا کسی اور ویب سائٹ پر بلوچ احتجاج کو کوریج ملی،
سوشل میڈیا اسٹبلشمنٹ یا دوسرے لفظوں میں سپراسٹارز کی عدم دلچسپی کے باعث بلوچوں کے غیر بلوچ دوستوں کی وال پر متعدد افراد پوچھتے نظر آئے کہ بلوچستان میں کیا ہورہا ہے؟۔ گویا گزشتہ دس دنوں سے پاکستانی جغرافیے کے 45 فیصد حصے پر عوام سڑکوں پر نکل رہے ہیں لیکن باقی ماندہ پاکستان ابھی تک پوچھ رہا ہے کہ ان کا مسئلہ کیا ہے۔
بعض بلوچ ایکٹوسٹ اس صورتحال کو پاکستانی سوشل میڈیا سپراسٹارز کی بے حسی سے تعبیر کررہے ہیں، میرا ماننا ہے یہ بے حسی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی سوشل میڈیا اسٹبلشمنٹ کی ساخت، رجحان، سیاسی مفادات اور اس سے بننے والے زاویہ نگاہ کا نتیجہ ہے، سوشل میڈیا کے بلوچ صارفین کو اس کا اچھی طرح تجزیہ کرنا چاہیے اور آئندہ ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے ایشوز کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ہمارے استحصال کی یہ بھی ایک شکل ہے جسے جاننا اور سمجھنا چاہیے۔