پاکستانی میڈیا فوج کا ترجمان ہے | پرویز مینگل

0
414

بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ قابض ریاست کے میڈیا کی خاموشی اور انسانی حقوق کے اداروں کے گونگا اور بہرہ پن بلوچستان کے مسائل میں مزید اضافے کا موجب ثابت ہوئے ہیں۔ ان اداروں کے اسی کردار کی وجہ سے بلوچستان کےحالات دن بہ دن ابتر اور گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔

پاکستان میں بلوچستان کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے حوالے سے میڈیا پر پابندی اور بلوچستان کیلیے مکمل سکوت نے بلوچ قوم کے دلوں میں مزید نفرتوں کو ہوا دے رہی ہیں اور اب ایک عام بلوچ بھی آبادکار اور مقامی افراد کے رشتوں کو بہترطور طر بیان کرسکتا ہے۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں میڈیا سینسر شپ کا راج ہے لیکن حالیہ دنوں ایک خبر سامنے سے گزری جہان پاکستانی حکومت نے میڈیا پر فیک نیوز چلانے کی 3سال سے 5سال کی سزا مقرر کر دی ہے جو ناقابل ضمانت یوگی۔ اس حوالے سے اہم نقطہ یہ ہے کہ فیک نیوز کی کوئی ڈیفینیشن واضح نہیں کیا گیا لیکن ایک چیز صاف دیکھائی دے رہی ہے کہ فوج اور حکومت کے خلاف کوئی نیوز چلانے والا پابند سلاسل ہوگا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے لیے غلط خبر وہی ہے جس میں پاکستانی فوج کے کرتوتوں کا پردہ فاش کیا جائے، ویسے فیک جعلی اور جھوٹ کو کہتے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا میں فیک نیوزہی جگہ بناپاتی یے اور حقیقی خبر کی کوئی جگہ ہی نہیں بنتی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو چودہ سال ہونے کو ہے جو کبھی کوئٹہ، کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد میں پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کی سلامتی اور بازیابی کیلئے احتجاج کررہے ہیں لیکن کبھی بھی پاکستانی میڈیا کے زینت نہیں بنے۔ ماما قدیر نے 3ہزار کلومیٹر کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا کسی صحافی نے اپنا فرض نہیں نبایا ماسوائے حامد میر کے جنہوں نے ماما قدیر، فرزانہ مجید اور علی حیدر کو ایک ٹوک شوز میں مدعو کیا۔ بعد میں حامد میر کو اس کے اس عمل پر 8 گولیاں تحفے میں ملی، یہ خدا کا شکر ہے کہ وہ بچ گیا ہے۔

بلوچستان سے باہر بھی بلوچوں کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے حالیہ دنوں اسلام آباد میں بلوچ طالب علموں کے امن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی اور طالب علموں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور بہت سے طالب علم بری طرح زخمی ہوئے لیکن پاکستان میڈیا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی کیونکہ وہ بلوچ تھے۔

‏ایک طرف گورنمنٹ فیک نیوز روکنے کے لیے پیکی آرڈیننس لے کر آتی ہے دوسری طرف کچھ میڈیا والے خود ہی فیک نیوز پھیلاتے ہیں جوان کی آپسی ملی بھگت کو ظاہر کرتی یے۔

ہمیں تو حکومت اور اس کے عہدیدار فیک اور جعلی لگتے ہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی اسی زمرے میں اتے ہیں جو پاکستانی حکومت اور فوج کی ترجمانی کرتے آرہے ہیں۔ لہذا یہ نیا ڈونگ رچانے کا مقصد کوئی حکومت کیخلاف آواز نہیں اٹھائے ایسے قانون سلیکٹڈ وزیروں پر کیوں لاگو نہیں ہوتے جو ہر روز غریب عوام سے جھوٹے وعدے کرتے ہیں وہ ایک الگ بات ہے کہ مظلوم قوموں کیلئے پاکستانی حکومت، عدلیہ، میڈیا سب ایک جیسے ہیں انصاف کہیں سے نہیں ملتا اور نوآبادکار مقامی افراد کو دے بھی نہیں سکتا کیونکہ ان سب کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے اور ایسے نظام میں فوج کا کام ہے ملک چلانا کسی کو انصاف دلانا نہیں، ملک کا جو پہیہ چلتا ہے وہ دہشگردی پر منحصر ہے جس کی وجہ سے وہ بیرونی امداد بٹورتے ہیں جن میں عسکری امداد کو وہ بلوچوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

اگر پاکستان سمجھتی ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے اندرون پاکستان اور دنیا کو گمراہ کیاجائے گا تاکہ ان کا دانا پانی کا سلسلہ چلتا رہے تو انہیں اس بات کا ادراک بھی ہونا چاہیے کہ جھوٹ کے سہارے کھڑی کی ہوئی دیواریں جلد زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ لہذا بلوچ اس طرح کے حربے سمجھ سکتی ہے اور انہیں کاونٹر کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے جس میں کامیابی بھی بلوچ کی ہوگی۔پاکستان ایک سچ چھپانے کیلئے سو جھوٹ چائیے بولے پھر بھی سچ کہیں نہ کہیں سامنے آئی جائے گا۔ ہم عالمی برادری کے سامنے سچ رکھ کر پاکستان کے جھوٹ اور مکاری کا پردہ پاش کرتے رہیں گے۔جو آگ بلوچستان میں لگائی گئی ہے وہ اس طرح کے حربوں سے ختم ہونے والی نہیں۔

پاکستانی ٹی وی اینکر اور سوشل ایکٹیویٹیس قابض پاکستان کو ملک خدائیداد مانتے ہیں، ملک مدینہ یا ملک اسلام نام رکھنے یا بدلنے سے کوئی تبدیلی آنے والی نہیں کیونکہ بلوچ سمیت باقی قومیں بھی ظالمانہ نظام اور دہشگردانہ روپ پہچان چکے ہیں کب تک خود کو اور اپنی قوم کو دھوکے یا اندھیرے میں رکھوگے۔

جس ملک میں انسانیت نام کی کوئی شئے سرے سے موجود نہیں ہر طرف ظلم اور ظالمانہ رویے دکھائی دے رہی ہو وہ کتنی دیر قائم رہ سکتی ہے۔

پاکستانی میڈیا بلوچوں کے خلاف جو زہر اگلتی ہے اس سے بلوچ کی آزادی کی تحریک کو نقصان نہیں بلکہ مزید فایدہ ہو رہا ہے
جو ظلم اور زیادتیاں بلوچ قوم پر ہورہی ہیں آج یہی ظلم اور زیادتیوں کو ہم سے چھپانے یا الگ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے یہ پاکستانی میڈیا کے لیے احمقانہ فعل کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ کیا ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرنے والا کون ہے، کیا ہمیں ہمارے نوجوانوں کی لاشیں مسخ کرنے والوں کا پتہ نہیں، کیا ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کے ہمارے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے لاپتہ کرنے اور انھیں تعلیمی اداروں سے دور کرنے کی جو سازش ہورہی ہے ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، ہمارے گھروں کی چادر و چار دیواری کو پامال کرنے والے کون ہیں، ہمارے سائل وسائل لوٹنے والا کون ہے۔ پوری دنیا یہ جانتی ہے کہ ان سب کے پیچھے کوئی اور نہیں پاکستانی فوج ہے جس کی وجہ سے بلوچ جنگ آزادی زور پکڑتی جارہی ہے آزادی کی تحریک کو ایندھن اور آکسیجن پاکستان خود فرائم کر رہی ہے۔ اس کے باوجود پاکستانی میڈیا بلوچ آزادی کی تحریک کو بیرونی ممالک کا چال کہتی ہے یا کہتے ہیں کہ پاکستان توڑنے میں بیرونی قوتوں کا ہاتھ ہے حالانکہ دنیا پہ واضح ہوچکا ہے کہ بلوچ اپنی جنگ اپنے زور بازو سے لڑرہے ہیں۔

ایک بلوچی قاوت ہے
( بیر بلوچانی داں دو سد سال ءَ لسّھیں آھوگے دو دنتان اِنت)

اس کے معنی ہیں بلوچ کا بدلہ تا دو سو سال تک تازہ ہے اور بلوچ اپنے دشمن کے ساتھ بیٹھنے کو کبھی بھی ترجیح نہیں دے گا۔

***

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here