یوکرین جنگ کیلئے اسلحے کے حصول میں اقوامِ متحدہ کی پابندیاں نظر انداز

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

روس یوکرین میں جاری جنگ کو طول دینے کے لیے شمالی کوریا سے گولہ بارود، ایران سے ڈرونز اور میزائل خریدتا رہا ہے اور اس نے افغانستان میں طالبان سے تعلقات بھی مضبوط کیے ہیں۔

روس یوکرین میں جاری جنگ کو طول دینے کے لیے شمالی کوریا سے گولہ بارود، ایران سے ڈرونز اور میزائل خریدتا رہا ہے اور اس نے افغانستان میں طالبان سے تعلقات بھی مضبوط کیے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی روک تھام کے لیے ان مذکورہ تینوں حکومتوں سے اسلحے کی خرید و فروخت اور لین دین پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

روس اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے ایران اور شمالی کوریا کو سفارتی مدد دیتا ہے جس میں ان پر پابندیوں کو ویٹو کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔

فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے بھرپور حملے کے بعد سے ایران ماسکو کو دو ہزار سے زائد شاہد 131/136 خودکُش ڈرونز اور 18 مہاجر 6 ڈرونز فراہم کرچکا ہے۔

روس یوکرین میں حساس انفرااسٹرکچر اور شہری اہداف کو نشانہ بنانے اور کیف کا دفاعی نظام کمزور کرنے کے لیے اکثر ایرانی ڈرونز کا استعمال کرتا ہے۔

یوکرین نے رواں برس ستمبر میں کہا تھا کہ روس نے باقاعدہ جنگ کے آغاز کے بعد سے 8060 سے زائد ایرانی ساختہ ڈرونز استعمال کیے ہیں۔ اس میں ایران سے تیار شدہ حالت میں لیے گئے ڈرونز اور روس کے علاقے ری پبلک تاتارستان میں ایرانی پرزے اور ٹیکنالوجی سے بنائے گئے دونوں طرح کے ڈرونز شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ایران نے روس کو 2024 میں سینکڑوں میزائلوں کی کمک فراہم کی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ روس ایران کو سو 35 لڑاکا طیارے اور جدید دفاعی سسٹم فراہم کرنے کا وعدہ کر چکا ہے۔ بعض روسی ٹیکنالوجیز ایران پہنچ چکی ہیں جس میں سو 35 کے پائلٹس کو تربیت دینے کے لیے استعمال ہونے والے یاک 130 طیارے بھی شامل ہیں۔

تاہم ایران میں کس بڑے پیمانے پر روسی ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے؟ یہ فی الحال واضح نہیں ہے۔

ایران روس کو پراپیگنڈے کے میدان میں بھی مدد فراہم کرتا ہے اور اس کے اعلیٰ حکام کے بیان بازی اور خبروں کی زبان میں یوکرین پر کریملن کے بیانیے سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای متعدد مواقع پر روس کی جارحیت کو مغربی استعمار اور نیٹو کے خلاف ’’دفاعی اقدام‘‘ قرار دے چکے ہیں۔

امریکہ کی قیادت اور یورپی یونین کی حمایت سے اقوامِ متحدہ کی ایران پر عائد کی گئی پابندیوں کا مقصد تہران کے جوہری پروگرام، ہتھیاروں کی خرید و فروخت اور مالیاتی نطام کو ہدف بنانا ہے۔ خطے میں عدم استحکام کے ایرانی منصوبوں کو ناکام بنانا بھی ان پابندیوں کے مقاصد میں شامل ہے۔

روس کی ایران سے ہتھیاروں کی خریداری نہ صرف ان پابندیوں کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ ہتھیاروں کی برآمد سے ایران کی عسکری صنعت کو بھی طاقت حاصل ہو رہی ہے۔

ستمبر 2023 سے، شمالی کوریا روس کو لگ بھگ 50 لاکھ توپ خانے کے گولے فراہم کر چکا ہے۔ روس کی اپنی پیداواری صلاحیت 20 سے 30 لاکھ گولے بنانے کی ہے۔ ایسے حالات میں شمالی کوریا کی فراہم کردہ تعداد غیر معمولی ہے۔

روس نے یوکرین میں شمالی کوریا کے تیار کردہ کے این 24/23 بیلسٹک میزائل بھی استعمال کیے اگرچہ ان میزائلوں کی ناکامی کی شرح مبینہ طور پر بہت زیادہ ہے۔

ہتھیاروں کی خریداری کے علاوہ روس شمالی کوریا کو سفارتی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر روس بین الاقوامی فورمز پر اس کی حمایت کرتا ہے اور شمالی کوریا کی تیل کی درآمدات اور جوہری صنعت سے متعلق اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی مخالفت بھی کرتا ہے۔

رواں برس جون میں شمالی کوریا اور روس نے اسٹرٹیجک تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت فریقین میں سے کسی ایک پر بھی حملہ ہونے کی صورت میں دونوں ممالک ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔

شمالی کوریا سے ہتھیار درآمد کر کے روس اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پیانگ یانگ سے ہتھیاروں کی تجارت پر عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

یہ پابندیاں شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگرام کو محدود کرنے کے لیے کی گئی ہیں جب کہ سائبر سرگرمیوں اور "شپ ٹو شپ ٹرانسفر” کو روکنے کے لیے ان کا اطلاق کیا جاتا رہا ہے۔

روسی حکومت نے 2003 میں طالبان کو دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا اور روس میں اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی تھی۔ تاہم مئی 2024 میں روس کی خارجہ اور انصاف کی وزارتوں نے صدر ولادیمیر پوٹن کو تجویز دی تھی کہ طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا جائے جس میں اب بھی اس کا نام شامل ہے۔

اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ و اتحادیوں کے انخلا اور طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے کریملن بتدریج افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔

سال 2022 کے بعد طالبان نمائندوں نے روس کے ’’شمالی دار الحکومت‘‘ سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے والے بین الاقوامی اقتصادی فورم کے ہر اجلاس میں شرکت کی ہے۔

ماسکو طالبان کے ساتھ اقتصادی تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ روس کے پیش نظر یہ مقصد ہے کہ افغانستان کے ذریعے بھارت کو قدرتی گیس اور پاکستانی بندرگاہوں تک مصنوعات پہنچائی جاسکتی ہیں۔ تاہم اس کے لیے گیس پائپ لائن اور شمالی افغانستان کے مرکزی شہر مزار شریف تک ریلوے لائن کی تعمیر درکار ہے۔

روس طالبان کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھا رہا ہے جس سے ممکنہ طور پر اُس بین الاقوامی فریم ورک کی خلاف ورزی ہوگی جس میں طالبان پر دہشت گرد تنظیم کی حیثیت سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی سے تاریخی تعلق ہونے کی بنا پر طالبان کو تنہا کرنا ہے۔

دنیا کے کسی ملک نے افغانستان میں طالبان حکومت کی قانونی حیثیت تسلیم نہیں کی ہے۔ البتہ چین اور متحدہ عرب امارات طالبان کے مقرر کردہ سفیروں کو تسلیم کر چکے ہیں۔

Share This Article