یوکرین میں روسی افواج کے حملے سے یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ میں آگ لگ گئی ہے جس سے بڑی تباہی کے خدشے کا ظہار کیا جارہا ہے۔
یوکرین میں روسی مداخلت کو ایک ہفتے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور اہم شہروں پر افواج کے حملے بڑھ رہے ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق یوکرین کے 10 لاکھ سے زیادہ شہری ملک چھوڑ چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس مداخلت کے بعد سے سینکڑوں شہری ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
روسی افواج نے جنوبی شہر خیرسون پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ روسی قبضے میں آنے والا پہلا بڑا شہر ہے۔
یوکرین کے صدر نے یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ پر روسی حملوں کے بعد دنیا بھر کے ممالک سے ’فوری کارروائی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
ولادیمیر زیلنسکی نے ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا ’یورپ کے سب سے بڑے جوہری پاور پلانٹ میں اس وقت آگ بھڑک رہی ہے۔‘
اس نے روسیوں پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر زیپروزیا پلانٹ کے چھ ری ایکٹروں پر تھرمل امیجنگ سے لیس ٹینکوں سے فائرنگ کر رہے ہیں۔
1986 میں چرنوبل میں ہونے والی تباہی کی مثال دیتے ہوئے، انھوں نے خبردار کیا کہ زیپروزیا میں پگھلاؤ کے نتائج کہیں زیادہ بدتر ہوں گے۔
انھوں نے التجا کی کہ ’یورپیو اٹھو، اپنے سیاستدانوں کو بتاؤ کہ روسی افواج یوکرین میں جوہری پلانٹ پر حملہ کر رہی ہیں۔‘
’روسی کہتے آئے ہیں کہ وہ دنیا کو جوہری راکھ تلے دبا دیں گے۔۔ اب یہ ایک وارننگ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔‘
یوکرین کی جوہری پلانٹ پر روسی حملے کے ردعمل میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے کہا ہے کہ وہ یورپ سمیت یوکرین کے سب سے اہم جوہر پلانٹ پر روسی حملے کی اطلاعات کے پیش نظر یوکرینی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
جوہری پلانٹ کے ایک ترجمان نے سوشل میڈیا پر بھی کہا ہے کہ روسی افواج ’بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری بند کریں۔‘
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، اینڈری ٹز نے ٹیلی گرام پر ایک ویڈیو میں کہا کہ ’یورپ کے سب سے بڑے ایٹمی توانائی پلانٹ میں نقصان سے جوہری نقصان کا خطرہ ہے۔‘
ٹز کا کہنا تھا کہ ’پلانٹ براہ راست روسی گولہ باری کی زد میں ہے اور آگ بجھانے والا عملہ جوہری پلانٹ میں بھڑک اٹھنے والی آگ کو بجھانے کے لیے اس کے قریب نہیں جا سکتے۔‘
دوسری جانب امریکی وزیر توانائی جینیفر گرانہوم نے ٹویٹ کیا ہے کہ انھوں نے یوکرین کے وزیر توانائی سے زیپروزیا پلانٹ میں لگنے والی آگ کے بارے میں بات کی ہے اور امریکی نیوکلیئر انسیڈینڈ ریسپانس ٹیم کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی جوہری ہتھیاروں کی نگرانی کرنے والے گران ہولم نے پلانٹ کے قریب روسی فوجی کارروائی کو ’لاپرواہی‘ قرار دیتے ہوئے انھیں بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
’پلانٹ کے ری ایکٹر مضبوط کنٹینمنٹ کے ذریعے محفوظ ہیں اور اس وقت ان ری ایکٹرز کو محفوظ طریقے سے بند کیا جا رہا ہے۔‘
یوکرین میں ایک ہفتے سے روسی حملہ اور بھیانک کارروائیاں جاری ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر روسی دستے مزید جنوبی شہروں پر قبضہ کر لیتے ہیں تو یوکرینی افواج کے لیے سمندری راستہ بند ہوسکتا ہے۔
روسی سرحد کے قریب واقع ساحلی شہر ماریوپل میں شدید شیلنگ کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات درپیش ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ دارالحکومت کیؤ اب بھی یوکرینی حکومت کے کنٹرول میں ہے تاہم اس کی جانب ایک بڑے روسی فوجی قافلے کی پیش قدمی جاری ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن کے وزیر خارجہ نے متنبہ کیا ہے کہ تیسری عالمی جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال ہوسکتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ روسی اس بارے میں نہیں سوچ رہے۔