سابقہ افغان حکومت کے اقوامِ متحدہ میں سفیر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کریں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے ناصر احمد اندیشہ نے طالبان کی جانب سے 15 اگست کو کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات پر زور دیا۔
’آج کروڑوں لوگ اپنی زندگیوں اور انسانی حقوق کے متعلق خوف زدہ ہیں اور عالمی برادری نہ ایسے وقت میں چپ رہ سکتی ہے نہ اسے چپ رہنا چاہیے جب ملک میں ایک انسانی بحران جنم لے رہا ہو۔‘
ناصر احمد اندیشہ کو سابق صدر اشرف غنی نے جنیوا میں تعینات کیا تھا اور افغانستان کے نئے حکمرانوں نے اب تک اُن کی تبدیلی کی گزارش نہیں کی ہے اس لیے وہ اب بھی اپنے عہدے پر موجود ہیں۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کے سربراہ مشیل بشیلیٹ اور یورپی یونین نے بھی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے اور ان کو دستاویزی شکل میں لانے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کریں۔
طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد سے مختلف مقامات پر خواتین مظاہرین پر تشدد کی ویڈیوز منظرِ عام پر آئی ہیں جبکہ متعدد صحافیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے اُنھیں ایسے مظاہروں کی کوریج کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
طالبان کی جانب سے ان دعوؤں کی تردید کی گئی ہے۔
طالبان نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم کے الزامات کو ’سختی سے مسترد‘ کیا ہے۔
ان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان تنظیموں سے زمینی حقائق جان کر کسی نتیجے پر پہنچنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹ واچ کی حالیہ رپورٹس میں طالبان پر سابقہ حکومت، فوج، صحافیوں اور سماجی کارکنان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے دوران مبینہ جرائم سے ممکنہ طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔