طویل اور پُر مصائب سیاسی جدوجہد کا ایک روشن عہد سردار عطا اللہ مینگل کی رحلت کے بعد تقریباً تمام ہوگیا۔ ہماری جدید قومی مزاحمتی تاریخ کے وہ غالباً آخری اہم ترین کردار تھے۔سردار خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی، میر غوث بخش بزنجو، سردار شیر باز مزاری، میر گل خان نصیر، قادر بخش نظامانی جیسے چراغ ایک ایک کرکے بجھ گئے۔ آج صرف استاد ٹالپر حیات ہیں، انہیں اچھی صحت اور لمبی عمر ملے۔
جھلاوان ہمیشہ سے ہماری قومی مزاحمتی تاریخ کا فخر رہا ہے۔ پاکستانی نصاب میں صرف ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے انگریزی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن وہ کبھی غلطی سے بھی جھلاوان کے عظیم سپوت میر محراب خان کا ذکر نہیں کرتے جنہوں نے محض چالیس ساتھیوں کے ہمراہ وقت کے سپر پاور کا مقابلہ کرکے کہا:”جنگیں صرف ہار جیت کے لئے ہی نہیں ہوتیں بعض جنگیں اقوام کو زندہ رکھنے کے لئے بھی لڑی جاتی ہیں ”۔
جھلاوان کے پہاڑ نورا مینگل کی شجاعت کے بھی گواہ ہیں جنہوں نے چند ساتھیوں اور از کارِ رفتہ بندوقوں کے ساتھ فرعونِ دوراں انگریز نوآباکاروں کی قبضہ گیری کو چیلنج کیا۔
جھلاوان آباد رہے؛ بابو عبدالکریم وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستانی قبضہ گیری کے خلاف پہلی مسلح مزاحمت کرکے ہماری جدید مزاحمت کو مضبوط بنیاد فراہم کی اور میر غوث بخش بزنجو نے ہماری طبقاتی و قومی آزادی کی سیاست کو نئے راستے دکھائے۔
جھلاوان کی مٹی بلوچ آنکھوں کا سُرمہ رہے؛ بابو نوروز خان نے خود ساختہ پاکستانی فیلڈ مارشل ایوب خان کے غرور کا سر نیچا کرکے پاکستانیوں کی دھوکہ باز فطرت کو آشکار کیا۔
سردار عطا اللہ مینگل بھی جھلاوان کا خوب صورت تحفہ ہیں۔ سردار نے بابو نوروز کی جدوجہد اور ان کی اصول پسندی کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ میر غوث بخش بزنجو کے دکھائے راستے پر غور کرتے رہے۔ پھر کیا ہوا؟ وہ آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑے۔ جھلاوان ایک دفعہ پھر ہمارا اصول پسند مزاحمتی قائد تھا۔
اس وقت پاکستانی جغرافیے میں بلوچستان نامی کسے خطے کا کوئی وجود نہ تھا۔ بلوچستان مغربی پاکستان نامی جنگل میں کھو چکا تھا، ایک ایسا جنگل جہاں بلوچ خور درندوں کی حکمرانی تھی۔تعلیمی ادارے عنقا اور ہماری قومی زبانیں بے وقعت تھیں۔ ہم سات حریت پسندوں کے عدالتی قتل کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔ ہمارا بابو ضعیف العمری میں پسِ زنداں تھا۔ ایسے میں سردار عطا اللہ مینگل کی گرج دار آواز گونجی۔ کراچی سے زرنج تک بلوچ دل دھڑک دھڑک اٹھے۔ مینگل ہماری امیدوں کا ستارہ بنا۔وہ ایوب خان سے لڑے۔ بے جگری سے لڑے۔ ہمارے لئے، ہمارے مستقبل کے لئے بس لڑتے رہے، بنا تھکے، بنا جھکے۔ وہ بلوچستان کے نام کو مغربی پاکستان کے جنگل سے باہر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر……
ان سمیت ہمارے تمام اکابرین چوک گئے۔ وہ صبح کے ماتھے کا کالا پن دیکھ نہ پائے۔ وہ ایک کھٹے پھٹے اور نامکمل بلوچستان کو پاکستانی صوبہ بنانے پر قناعت کر گئے۔ بلوچستان جو ہمارا وطن ہے، جس کی ڈالی ڈالی کو سنوارنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بدن کا لہو بہایا۔ وہ……. ایک کٹا پھٹا صوبہ!!!!۔سردار ہمارے پہلے اور تاحال آخری منتخب قومی وزیرِ اعلی بنے۔
انہوں نے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ جہلم و گجرات کے ”سجیلے” جوانوں کے ناپاک قدموں سے سمندر کو محفوظ بنانے کی کوششیں کیں۔ ہماری روٹی پر قابض نوآبادکاروں کو باہر کا راستہ دکھایا۔ پاکستانی کہتے ہیں وہ سخت اور بے لچک تھے۔ ہم کہتے ہیں اصول پسند اور دیانت دار تھے۔ ہمارے پہاڑوں میں بہتی ندیوں کی طرح شفاف، کامل بلوچ سردار سے لیکن یہاں ایک اور چوک ہوگئی۔
انہوں نے بلوچی اور براہوئی زبانوں کو ان کا جائز حق نہ دیا۔ وہ اردو کے دامن سے ہی لپٹے رہے۔ اس چوک نے ہماری زبانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔پاکستان پر بھٹو حکمران تھا۔ مداری بھٹو، بھٹو نے بلوچ کو بھی اپنے اشاروں پر نچانا چاہا۔ وہ چانڈیو اور جتوئی جیسے بلوچ جاگیرداروں کی مانند مینگل کو بھی اپنے سرکس کا شیر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا رہا۔غلط فہمی ختم ہوئی، غرور کا نشہ ٹوٹا تو وہ وقت کے محراب خان پر حملہ آور ہوا۔ مینگل قبیلہ ڈٹ گیا۔نورا مینگل مرتے کب ہیں؟۔سردار کا جواں سال فرزند جبری گمشدگی کا شکار ہوا۔ جھلاوان پر آتش و آئن کی برسات ہوئی۔
کوہستان مری لہو رنگ ہوا۔ ہمارے نوجوان حریت پسند ہیلی کاپٹروں سے گرائے گئے۔ہماری بچیاں اغوا کرکے بیچی گئیں۔ سردار حیدرآباد میں پابندِ سلاسل تھے۔ وہ ہماری قیادت کرنے کی بھاری قیمت چکا رہے تھے۔ کہتے ہیں:”دنیا کا سب سے بڑا بوجھ باپ کے کندھے پر جوان بیٹے کا جنازہ ہوتا ہے” ہمارا یہ عظیم رہنما ہماری قیادت کرنے کے جرم میں اس سے بھی بڑا بوجھ اٹھا رہے تھے، انہیں تو جنازہ دیکھنا تک نصیب نہ ہوا۔
بلوچ مزاحمتی رہنما بننے کی قیمت وہ کیا جانیں جن کے رہنما جیل میں اے سی نہ ملنے کی شکایت پر ولایت بھاگ جاتے ہیں۔مصیبتوں کے پہاڑ گر گئے۔ سردار استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔ سردار خیر بخش مری کی طرح۔ تاہم اب وہ بدل چکے تھے۔ انہوں نے پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر دو حرف بھیج دیے۔ وہ بزنجو کے نئے راستے پر چلنے سے انکار کر گئے۔ وہ مظلوم اقوام کے اتحاد ”پونم” کے سربراہ بن گئے۔ جدید بلوچ مزاحمت کے نوجوان قائدین ان کی طویل جدوجہد اور ثابت قدمی کو نظر انداز کرکے پیر مرد کے جدید کردار پر لعن طعن کرنے لگے۔
انہیں تحریکِ آزادی کی قیادت نہ کرنے پر مجرم ٹھہرایا گیا۔ بلوچ بھی ظالم ہیں!!!!! سردار نوجوان مزاحمتی قائدین سے نالاں دکھائی دیے۔ ایک دن جل بُھن کر کہا:”اگر تم لڑ مر کر آزادی لے سکتے ہو تو لے لو ورنہ اپنی ماؤں کو مت رلاؤ”۔ یہ ایک باپ کی آواز تھی۔ جس نے پوری زندگی اپنے سامنے کٹتے مرتے بلوچ دیکھے تھے۔ نوجوان مزاحمتی اس پدرانہ صدا کو سمجھ نہ سکے اور پیر مرد کو مزید لعن طعن کرنے لگے۔پھر ایک دن بلوچ رہنما کی آواز گونجی۔ ایک ایسی آواز جس نے آگے چل کر بلوچ مزاحمت کی شکل ہی بدل دی۔ انہوں نے ٹھوس لہجے میں کہا:”قومی آزادی کی خاطر بلوچوں کو خودکش حملوں کی طرف توجہ دینی چاہیے”بلوچ مزاحمتی تاریخ میں صرف عبدالمجید لانگو ہی ایک استثنی ہیں جنہوں نے بھٹو پر خودکش حملہ کرنے کی کوشش میں اپنی جان دی۔ ان سے پہلے اور بعد خود کش حملوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
سردار کا مشورہ ہوا میں گھل گیا لیکن شاید دور پہاڑوں پر بیٹھے چند مسلح بلوچ اس مشورے پر سنجیدگی سے غور کرنے لگے۔ بالآخر ایک دن جدید بلوچ مزاحمت نے سردار کے مشورے کو عملی جامع پہنا دیا۔سردار عطا اللہ مینگل کسی پاکستانی ”قائدِ اعظم” کی مانند الوہی درجے پر فائز نہیں تھے۔ وہ فانی انسان تھے۔ ان سے غلطیاں بھی ہوئیں، کبھی اندازے غلط نکلے تو کبھی فیصلوں میں بھول ہوئی۔ یہ طے ہے انہوں نے اصولوں پر سمجھوتے نہ کئے۔ جو راستہ انہوں نے چُنا اس پر دیانت داری اور استقلال کے ساتھ چلتے رہے۔ انہوں نے پاکستان سے ”ناراض بلوچ” نہیں بلکہ ”بیزار بلوچ” کی طرح زندگی گزاری۔ ہم آج اپنے عظیم قائد کو اس عہد کے ساتھ الوداع کہتے ہیں ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں گے۔ ان سے محبت اور احترام کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہے گا۔
٭٭٭
(بشکریہ ذولفقار علی زلفی فیس بک وال)