سرِعام سزائے موت ظالمانہ، غیر انسانی و ذلت آمیز سزاہے، عالمی برادری

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

افغانستان میں طالبان کی جانب سے قتل کے مجرم کو سرِعام سزائے موت دینے پر اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری نے سختِ ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور اسے ‘انتہائی پریشان کن’ پیش رفت قرار دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان جیریمی لارنس نے کہا کہ سرِعام موت کی سزا مقامی رہائشیوں اور کچھ طالبان حکام کی موجودگی میں دی گئی۔ جو یہ یاد دلاتی ہیکہ سرِعام سزائے موت ‘ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا’ کی ایک شکل ہے۔

ادھر افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے افغانستان میں برسرِاقتدار طالبان حکومت سے مطالبہ کیا ہیاس طرح کی سزائے موت پر عمل درآمد فوری طور پر روکا جائے۔

امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی طالبان کی جانب سے سرِعام سزائے موت کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ طالبان کے 90 کی دہائی کے تاریکی دور میں واپسی کو ظاہرکرتی ہے۔

برطانیہ کے ناظم الامور نے ایک ٹوئٹ میں افغانستان میں پہلی سرِعام سزائے موت پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے غیر انسانی اور پیچھے کی طرف واپسی کا قدم قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ تمام حالات میں سزائے موت کی مخالفت کرتا ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان نے فوجداری انصاف کے لیے اسلامی قانون کی سخت سزائیں نافذ کرنا شروع کردی ہیں۔ بدھ کو طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ ایک قتل کے مجرم کو سرِعام سزائے موت دی۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ سزا پانے والا شخص قتل کا مجرم تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سرِعام سزائے موت پر عمل درآمد افغانستان کے صوبہ فراہ کے ایک اسپورٹس اسٹیڈیم میں کیا گیا۔ اس موقع پر طالبان کے اعلیٰ حکام بشمول چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم، نائب وزیرِاعظم عبدالغنی برادر، وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی، وزیر برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر محمد خالد حنفی ودیگر افراد موجود تھے۔

مجاہد نے واضح کیا کہ موت کی سزا پانے والے شخص تاج میر ولد غلام سرور پر طالبان کی اعلیٰ عدالتوں اور بعد ازاں اپیلٹ ٹریبونلز میں مقدمہ چلایا گیا، جہاں اس نے فراہ صوبے کے ایک رہائشی مصطفیٰ کو ‘چاقو کے وار سے قتل کرنے’ اور موٹر سائیکل سمیت ان کا سامان چرانے کا اعتراف کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ شخص مجرم پایا گیا تھا اور قاتل کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سزائے موت ‘قصاص’ کے قانون کے مطابق دی گئی جس میں اس شخص کو اسی طرح سزا دی جاتی ہے جس طرح متاثرہ شخص کو قتل کیا گیا۔

ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ”مجرم کو مقتول کے والد نے اسالٹ رائفل سے تین گولیاں ماریں۔”

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ شرعی سزا کے نفاذ کے فیصلے کا ‘بہت احتیاط’ سے جائزہ لیا گیا اور طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے اس کی منظوری دی۔

Share This Article
Leave a Comment