بلوچ سیاست میں ایک طرف پاکستانی وفاق کے اندرسیاست کرنے والی جماعتیں ہیں تو دوسری جانب وہ طبقہ ہے جو کہتے ہیں بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی، ہماری آزاد ریاست اور آزاد حیثیت پر پاکستان نے جبری قبضہ کیاہے، وہ اس کی بحالی اور بلوچ اقتداراعلیٰ کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو پارلیمانی سیاست کررہے ہیں جو خود کو قوم پرست بھی کہتے ہیں، ون یونٹ سے لے کر آج تک سترسالوں سے وہ پاکستانی پارلیمان میں بلوچ کی حیثیت منوانے میں کیوں ناکام ہیں۔ دوسری طرف وہ پارٹی اورتنظیم ہیں جوبلوچستان کی آزادحیثیت کی بحالی کے لیے جدوجہدکررہے ہیں، وہ بین الاقوامی سطح پر بلوچ جدوجہد برائے آزادی کومنوانے میں اب تک کامیاب کیوں نہ ہوسکے ہیں۔ اس کی اسباب کیا ہیں۔ ایسے ہی سوالوں کا جواب جاننے کے لیے آج ہم نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کو دعوت دی ہے ۔(شمس الدین شمس گدان ٹی وی )
گدان ٹی وی : آپ جس خطے میں اپنے ریاست کی بحالی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ، موجودہ حالات میں خطے میں ایک جنگ کی سی صورت حال ہے۔ ایک جانب چین بلوچستان میں موجود ہے تو دوسری جانب امریکہ اور ایران کا مخاصمت جاری ہے تو تیسری جانب طالبان نے افغانستان پر قبضہ حاصل کیاہے۔ ان حالات میں بلوچ جدوجہد کے سامنے کیا کیا چیلنجز ہیں؟
چیئرمین خلیل بلوچ : بلوچ جس خطے سے تعلق رکھتاہے یہ نہایت اہم خطہ ہے۔ افغانستان ہمارا اہم ہمسایہ ہے۔افغانستان کے حالات یقینا ہمیں متاثر کرتے ہیں کیونکہ ہماراطویل مشترکہ سرحد ہے۔ جب بھی بلوچ جدوجہد میں شدت کے سبب پاکستانی بربریت میں اضافہ ہواہے تو یہاں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے افغانستان کا رخ کیا ہے۔دنیا میں بلوچ مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد افغانستان میں موجود ہے۔ چونکہ افغانستان کے اپنے مخصوص سیاسی حالات ہیں، ہماری چاہ سے ان میں تبدیلی ممکن نہیں۔ لیکن طالبان کے آمد سے بلوچ زیادہ متاثر نہیں ہوگا۔ البتہ افغانستان میں قوم پرست اور سیکولر قوتیں برسراقتدار ہوں گی تو اس کے یقینا مثبت اثرات ہم پر مرتب ہوں گے۔ اب چونکہ وہاں طالبان آچکے ہیں تو یہ خوف یاخطرہ موجود ہے کیونکہ پاکستان کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ بلوچ سیاست اور سماج میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے لیکن مضبوط بلوچ نیشنلزم نظریے اور تاریخی طور پرمضبوط سیکولرتشخص نے اسے ناکام بنا دیا ہے۔ اس لیے ہم یہ امیدکرتے ہیں کہ ملائیت، مذہبی شدت پسندی پرمبنی سیاست کے امکان کم ہوں۔ البتہ طالبان پر پاکستان کے اثرونفوذ کی وجہ سے افغانستان میں موجود بلوچ مہاجرین کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اس سے قبل بھی وہاں بلوچ مہاجرین کو ہدف بناکرقتل کیا جا چکا ہے۔ یہ امکان موجود ہے کہ پاکستان بلوچ کے خلا ف طالبان کواستعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ موجودہ طالبان کے قیادت کو بلوچ سرزمین ، بلوچ جغرافیہ اور بلوچ سیاست کے اہمیت کاادراک کرکے بلوچ دشمنی سے گریزکرے ۔
گدان ٹی وی : طالبان میں مختلف گروپ موجود ہیں اوران کے اپنے اپنے مفاد ہیں جنہیں پاکستان ،سعودی یاایران مددکرتے ہیں ۔ان کے مفادت میں ٹکراؤنہیں آئے گا؟
چیئرمین خلیل بلوچ : یقیناتضادات ہیں کیونکہ افغانستان میں وارلارڈزہیں وہ نہایت مضبوط ہیں۔مختلف گروپس کومذہبی سلوگن پریکجاکیاگیاہے ،یہ امکان موجود ہے کہ ان کے درمیان تضادات ابھرکرسامنے آئے لیکن یہ کہناقبل ازوقت ہے کیونکہ طالبان کے آمدکو مختصروقت گزرچکاہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ موجودہ طالبان اپنی اقتدارسے ہاتھ دھونے کے بعدبیس سالہ جنگ سے کافی تجربات سے گزرچکے ہیں ۔ہم نے کافی محسوس کیاہے کہ طالبان بھی پشتون نیشنلزم کے رجحان موجودہے ۔ اس لیے پاکستان یاکسی اورملک کی جانب سے پشتون قومی مفادات کے خلاف استعمال ہونے سے طالبان راضی نہ ہوں لیکن اس کے لیے ہمیں آگے دیکھناہوگا۔
گدان ٹی وی : بلوچستان میں ایک سے زائد آزادی پسندپارٹی اورتنظیموں کے درمیان قربت یا رابطہ نہیں ،اس سے غلط فہمی اوردوریاں پیدا ہوچکی ہیں ،شکست وریخت بڑھ رہاہے ،مسلح تنظیمیں ٹکڑوں میں تقسیم ہورہے ہیں ،اس کے سدباب کے لیے بی این ایم جسے آپ ماس پارٹی کہتے ہیں ،کاکردارہمیں نظرنہیں آتاہے ،آپ اس میں کیاکرداراداکررہے ہیں ؟
چیئرمین خلیل بلوچ : میں آپ کے باتوں سے اتفاق نہیں کرتاہوں کیونکہ بہت سی چیزوں کاآپ نے مشاہدہ نہیں کیاہے ۔اندرونی اختلاف نئے نہیں ہیں دوہزارگیارہ سے ان میں شدت آئی ہے ،ایک دوسرے کے خلاف بولنا،لکھنا وغیرہ جیسے معاملات سے میں سمجھتاہوں کہ ہم نے بہت نقصان اٹھائی ہے ۔ اس کے سدباب کے لیے بی این ایم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ تمام آزادی پسند مسلح تنظیموں کے دورے کرکے ان کی قیادت سے ملاقات کرتاہے ،وہ کوشش کرتے ہیں کہ تضادات ا ختلاف ختم ہوں تاکہ اپنی جدوجہدکواشتراک عمل اوراتحادسے اپنی جدوجہدکوایک بہتررخ دے سکیں ۔بحیثیت پارٹی چیئرمین تمام بلوچ لیڈرشپ سے میرارابطہ رہاہے اورکوشش یہی رہی ہے کہ ایک مضبوط اتحادبن جائے ۔مسلح تنظیموں کے اتحادمیں بلوچ نیشنل موومنٹ کے ساتھیوں کانمایاں کنٹری بیوشن شامل رہاہے ۔ہماری یہ کوششیں مستقبل میں بھی جاری رہیں گے تاکہ غیرنظریاتی اختلاف،گروہی مفادات اورذاتی پسندوناپسندجیسے معاملات کاخاتمہ کرکے اپنی جدوجہدکوایک مضبوط سمت دے سکیں ۔
گدان ٹی وی : ایک جانب آپ کہتے ہیں کہ پارلیمانی پارٹیاں اسی طرح نقصان دہ ہیں جیساکہ پاکستانی فوج ،لیکن دوسری جانب یہاں (امریکہ ) میں آزادی پسندپارٹیوں کے لوگ انہی پارلیمانی پارٹیوں کے پروگرامز میں شرکت کرتے ہیں ،آپ کیاکہیں گے ؟
چیئرمین خلیل بلوچ : بی این ایم کاموقف پارلیمانی پارٹیوں کے بارے میں واضح ہے ،ہم انہیں بلوچ سیاست کے لیے ایک زہرسمجھتے ہیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ یورپ میں پارٹی نے کس پارلیمانی پارٹی کے پروگرام کاحمایت کیاہے؟ (سردارعطااللہ مینگل ایک پارلیمنٹرین تھا،کے وفات پربی این پی کے منعقدہ ایک پروگرام میں آپ کے عہدیداروں نے باقاعدہ کام کیاہے ۔گدان ٹی وی )
دیکھیں وہاں امریکہ میں بلوچوں کی اتنی بڑی تعدادمیں نہیں ،لوگ انگلیوں میں گنے جاسکتے ہیں اگرکسی نے کمیونٹی سطح پرایسی پروگرام کانعقادکیاہے ،اس میں شرکت سے کسی پارلیمانی پارٹی کی حمایت یااس کی پالیسی کی تائیدثابت نہیں ہوتی ہے ۔ البتہ سردارعطااللہ مینگل کابلوچ سیاست، بلوچ سماج میں نہایت اہم مقام ہے ،سردارصاحب سے اختلافات اپنی جگہ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم ان کے کنٹری بیوشن کوردکریں،ایسے کسی پروگرام میں شرکت پارٹی پالیسی سے انحراف نہیں۔
گدان ٹی وی : انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس (آئی سی آرسی )اورجنیواکنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول ون کے آرٹیکل بیالیس اورتینتالیس کہتے ہیں کہ ایک آزادی پسندتنظیم کواس وقت تسلیم کیاجاتاہے کہ وہ ایک سیاسی پارٹی کے تابع مرکزی کمان کے پابندہو۔سوال یہ ہے کہ بلوچ تنظیم کسی مرکزی کمان کے پابندہیں اگرنہیں توبلوچ اس مقام تک کب پہنچ پائے گا؟
چیئرمین خلیل بلوچ : اسے سمجھنا ،اس پہ کام کرنے کی بہت ضرورت ہے ۔ہم نے ہمیشہ کہاہے کہ جب تک ہم ایک مرکزی کمان کے تابع نہ ہوں یاہم دنیا کوباورنہ کراسکیں کہ ہم ایک مضبوط ڈسپلن کے پابند ہیں اورہماری تحریک صرف مسلح جدوجہدپرانحصارنہیں کرتاہے بلکہ وہ ایک سیاسی نظام کے نظام اورکنٹرول کے تحت کام کرتاہے ،یہ جدوجہدکی کامیابی کے لیے لازمی ہے ۔ بلوچ جغرافیہ کی اہمیت ،بلوچ وسائل کی اہمیت اوربلوچ کی اپنے سرزمین سے عشق اس بات کاتقاضاکرتے ہیں کہ ہماری سوچ اورپالیسیاں جنگی سرداروں جیسے نہ ہوں،ہم جنگی سردارنہ بن جائیں ۔ہمیں عالمی قوانین کی پاسداری کرنی چاہئے اورعالمی قوانین کے مطابق اپنے اداروں کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اور دنیا کو باورکرانا کہ ہماری بندوق سیاست کے تابع ہے ،اس پر پیشرفت کی ضرورت ہے ۔
گدان ٹی وی : آپ نے بلوچ سیاست کے سردوگرم کامشاہدہ کیاہے ۔بلوچ جنگ کس حدتک بلوچ قومی اخلاقیات پابند ہے؟
چیئرمین خلیل بلوچ : اس کابہترجواب جنگی ڈسپلن سے وابستہ ساتھی ہی دے سکتاہے ،میں سمجھتاہوں کہ جنگ میں بلوچ اخلاقیات کاخاص خیال رکھاجاتاہے،ہمیں کوئی بڑی خلاف ورزی نظرنہیں آتاہے البتہ کہیں کمزوری یاحادثات ہوئے ہیں لیکن اسے ہم اخلاقیات کاخلا ف ورزی نہیں کہہ سکتے۔ البتہ جہاں جہاں بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں توانہیں غلط ہی کہناچاہئے ۔ بلوچ قوم میں آپ کے لیے بھروسہ واحترا م قائم ہوا ہے اس کا خیال رکھنا لازم ہے کیونکہ اخلاقیات کی پاسداری سے آپ لوگوں کے دلوں میں اپنی احترام برقراررکھ پاسکیں گے۔
گدان ٹی وی : جنوبی بلوچستان وشمالی بلوچستان کے نام پرنئی سازش آرہی ہے ،دستاویزی کام مکمل ہوچکے ہیں،شائدمالی مسائل ہوں یاسی پیک کے مرکزی کی منتقلی کی وجہ سے تعطل کاشکارہو ،یہ تقسیم گولڈسمتھ لائن جیسی ہوگا،اس کے کیانقصانات ہوں گے ؟
چیئرمین خلیل بلوچ : جب بھی قابضین نے خوف محسوس کیاہے تواس نے بلوچ کو ٹکڑوں میں تقسیم کے عمل سے گزاراہے ۔آج بھی بلوچ جدوجہداسی نہج پرپہنچ چکاہے جس سےخدشہ پیداہوچکاہے کہ پاکستان بلوچ قوم پراپنی تسلط قائم رکھنے یااغلامی برقراررکھنے کے لیے مزیدتقسیم کرے ،دوریاں پیداکرے تاکہ بلوچ کے مشکلات بڑھ جائیں۔ موجودہ جدوجہد برائے آزادی کی بدولت اورقومی شعورسے بلوچ قوم میں جو قوت پیداہوچکی ہے کہ جس سے وہ یقینا پاکستان کے ایسی کسی بھی سازش کامقابلہ ومزاحمت کرے گا۔بلوچ مزیدتقسیم کامتحمل نہیں ہوسکتاہے۔
گدان ٹی وی : پارلیمانی پارٹیاں یا آزادی پسند ،سنگل پارٹی سب کاخواب رہاہے ،لیکن اب تک پوراہوتاہوانظرنہیں آتاہے،اس بارے میں آپ کیاکہیں گے؟
چیئرمین خلیل بلوچ : سنگل پارٹی کی بات 2004 کونواب اکبرخان نے کی تھی ،بی ایس اوکے ایک وفدکی صورت میں ہم نے نواب صاحب سے ملاقات کیا۔ہمارے یہاں مختلف الخیال لوگ موجود ہیں یابلوچ سماج میں جس سیاسی یا قبائلی شکل میں سیاست کی صورت پذیری ہوئی ہے ۔یہ سنگل پارٹی کی قیام کی راہ میں حائل رہے ہیں ۔ نواب اکبرخان سے ملاقات میں ہم نے یہی کہاتھاکہ سنگل پارٹی بن سکتاہے توبہت اچھی بات ہے لیکن ہمیں اس وقت متحدہ محاذکی ضرورت ہے ،وہ متحدہ محاذاس حدتک منظم اورمضبوط ہوکہ ہماری مسلح جدوجہداس کی پابندہو۔اس کے بعدبلوچ نیشنل موومنٹ نے چیئرمین غلام محمد کی شہادت کے بعد ایک ڈرافٹ تیارکرکےتمام بلوچ لیڈرشپ کودیاتھا۔اس ڈرافٹ میں ہم نے یہی تجویزدیاتھاکہ اگرہم سنگل پارٹی یا اتحادنہیں بناسکتے ہیں توایک کونسل بنائیں جس میں تمام آزادی پسند پارٹی اورتنظیموں کی نمائندگی ہو،نواب خیربخش اس کونسل سربراہ ہو،اس کونسل میں ہم اپناقومی پالیسی بنائیں۔ نواب خیربخش سے ملاقات میں ہم نے ان سے گزارش کی تھی کہ اس سلسلے میں اپناکرداراداکریں اورآپ کونسل کاسربراہ بن جائیں۔اگرآپ نہیں بن سکتے تومیرعبدالنبی بنگلزئی بن جائے۔ اس کے علاوہ ہم نے بی این ایف بنایاتھا،ڈاکٹرمنان جان نے اس حوالے سے بہت کام کیاتھا،میرے اپنے رابطے رہے ہیں ۔ہماری کوششیں آج بھی جاری ہیں تاکہ ہم بلوچ کوایک مضبوط فورم دے سکیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ہماری نجات اسی میں ہے۔