کیا تنویر احمد کو مار دیا جاۓ گا ۔ تحریر۔۔ جنید کمال

جنید کمال
جنید کمال
5 Min Read


تنویر احمد عرصہ دراز سے ریاست جموں کشمیر کی وحدت کے سوال کو لیکر اپنے ہی انداز سے جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں،تحقیقی ورک میں پیش رفت کرتے ہوۓ تنویر احمد پرچم کی اہمیت اور نوعیت کو سمجھ گٸے وہ اس فرق کو سمجھ گٸے جو قومی پرچم اور قابض کے پرچم میں ہوتا ہے،وہ اس فرق کو سمجھ گٸے جو قابض کے مسلط کردہ اور ریاستی پرچم میں ہوتا ہے،
تنویر احمد کا قابض ریاست کے پرچم کو اتارنے کا عمل محض کوٸی جزباتی عمل نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا درست بیانیہ کارفرماں ہے۔یہ بیانیہ قابض دشمن کی پہچان کے لیے ریاست جموں کشمیر کے عوام کی راٸنماٸی کرتا ہے،اس کے برعکس سارۓ بیانیے تاریخ کے ہاتھوں بری طرح پِٹ چکے ہیں،یہ بیانیہ ہے
جو جس کا غلام ہے اس کے خلاف جدوجہد کرۓ
اسی بیانیے کو لیکر پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام کی جدوجہد کا درست تعین ہوتا ہے،اس حصے کے عوام کی جدوجہد قابض پاکستان کے خلاف بنتی ہے،گلگت اور مظفرآباد کی آزادی ہی ریاست جموں کشمیر کے عوام کی نجات اور ریاست کی وحدت کی بحالی کا نقطہ آغاز ہے،یہاں قابض کے گماشتہ اور سہولت کار حکمران قابض ریاست کے پرچم کو اپنی چاکری بحال رکھنے کے لیے اٹھاۓ پھرتے ہیں،قابض کے مسلط کردہ پرچم کو اپنا قومی پرچم کرار دیتے ہیں۔تنویر احمد نے حقیقی معنوں میں قابض کے پرچم اور اس کے مسلط کردہ پرچم کو مسترد کرتے ہوۓ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان کے عوام کو جدوجہد کا نیا راستہ دیکھایا ہے کہ اپنی سر زمین پر غاصب اور قابض کے پرچم کو لہرانے سے انکار کرو۔


انکار کے اسی درس سے بغاوت جنم لیتی ہے،انکار کے اسی درس کو اجتماعی آواز دی جاۓ تو مظلوم قومیں اپنی شناخت،زبان،تہذیب و تمدن تقافت اور اشتراکی اخلاقیات کو تحفظ دیتی ہیں۔تنویر احمد کے اس جاٸز اور حب الوطنی پر مبنی برحق عمل کو سہراتے ہوۓ نوجوان طلباء،وکلا،صحافیوں ،دانشوروں ،ترقی پسند و آزادی پسند تنظیموں،جمہوریت پسند وسیع تر عوام کو تنویر احمد کے رہاٸی کے یک نکاتی ایجنڈۓ اور مطالبے کو لیکر نکلنا ہو گا چوکوں چوراوں سے لیکر میڈیا کے تمام ذراٸع کو تنویر احمد کی نا جاٸز گرفتاری کے خلاف استعمال کرنا ہو گا۔پاکستانی پرچم کو پورۓ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر گلگت بلتستان سے اتارنے کی تحریک کرنا ہو گی ورنہ تنویر احمد کو تو مار دیا جاۓ گا لیکن صرف تنویر احمد کو مارنے پر یہ سلسلہ ختم نہ ہو گا بلکہ یہ آغاز ہو گا قابض کی دہشت گردی کے نٸے دور کا جس دور میں ہمیں جبری گمشدگیوں مسخ شدہ لاشوں اور ماوراۓ عدالت قتل جیسے سنگین قسم کے ریاستی حربے سہنے ہوں گے،
آج ہمارۓ پاس وقت ہے کہ ہم منظم آواز بلند کر کہ عالمی دنیا کی توجہ قابض کے اوچھے ہتھکنڈوں کی جانب مبزول کریں۔تنویر احمد کو رہاٸی دلوانے کا واحد راستہ منظم احتجاج ہے بصورت دیگر ایک تنویر احمد کیا بہت سے تنویر احمد ہمیں کھونے پڑھیں گے لیکن دشمن کی طرف اپنی سمتوں کا درست تعین نہ کر پاٸیں گے۔اور اگر تنویر احمد کے اس عظیم عمل کے بعد بھی ہم درست بیانیے اور درست عمل کا تعین نہ کر سکے تو پھر ہماری ریاست کی وحدت اور قومی آزادی کا سوال قابض قوتوں کے درمیان فٹ بال بنا رہے گا اور ہم محض تماش بین رٸیں گے،
اب کے ہمیں جو جس کا غلام ہے اس کے خلاف جدوجہد کرۓ کی بنیاد پر گلگت اور مظفرآباد کو آزاد کرنے کی جدوجہد کو منظم کرنا ہو گا ہر محاذ پر ہر میدان میں قابض اور اس کے سہولتکاروں کو مزحمت دینا ہو گی۔اس منظم ہونے اور مزحمت کا آغاز تنویر احمد کی رہاٸی کی تحریک سے ہو گا،تنویر احمد کے جراتمندانہ عمل کے ساتھ انصاف یہ بنتا ہے کہ تنویر احمد کو ہم رہا کروا لیں یا پھر ہزاروں تنویر احمد بن کر ریاستی جیلوں کو بھر دیں،
آزادی پسند قیادت اور جمہوریت پسند عوام بالخصوص نوجوانوں کو عملی کردار ادا کرنا ہو گا۔تنویر احمد کو بچانا ہو گا یہ ہمارا قومی و طبقاتی فریضہ ہے۔

Share This Article
Leave a Comment