افغانستان کے شہر جلال آباد میں ایک جیل پر شدت پسندوں کے حملے میں تین افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے ہیں۔ ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق حملے کے دوران جیل سے متعدد قیدی فرار ہو گئے۔
افغان صوبے ننگرہار کی کونسل کے رکن سہراب قادری نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ جلال آباد میں افغان حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والی ایک جیل کے باہر اتوار کو پہلے دو کم شدت کے دھماکے ہوئے اور پھر ایک کار میں شدید دھماکہ ہوا۔
سہراب قادری کے مطابق دھماکوں کے بعد حملہ آوروں کی سیکیورٹی فورسز سے جھڑپیں ہوئیں۔
حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ داعش کی نیوز ایجنسی ‘اعماق’ پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اتوار کو ہونے والا حملہ داعش کے جنگجوﺅں نے کیا ہے۔
البتہ بیان میں حملے کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ داعش کے اس دعوے کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق بھی نہیں ہو سکی ہے۔
ادھر طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس حملے میں ان کی تنظیم کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
سہراب قادری کے مطابق حملے میں تین افراد ہلاک جب کہ 25 زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
سہراب قادری نے کہا ہے کہ حملے کے دوران جلال آباد کی جیل سے 50 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ حملہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے عیدالاضحیٰ پر کی گئی تین روزہ جنگ بندی کا اتوار کو آخری دن تھا جب کہ اس دوران افغان حکومت نے طالبان کے مزید سیکڑوں قیدی رہا کیے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال فروری میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنے کی پابند ہے جب کہ اب تک 4917 طالبان قیدی رہا ہو چکے ہیں۔ طالبان کے مطابق وہ معاہدے میں طے پانے والے ایک ہزار افغان قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل کر چکے ہیں۔
امن معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونا ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی اور طالبان عندیہ دے چکے ہیں کہ عید الاضحیٰ کے بعد بین الافغان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہو سکتا ہے۔