ٹرمپ کی نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس، مجوزہ غزہ جنگ بندی منصوبے کا اعلان

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مجوزہ غزہ جنگ بندی منصوبہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو غزہ تنازع کے خاتمے کے معاہدے پر متفق ہونے کے ’انتہائی قریب‘ ہیں ۔

وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ایک ’ بہت بڑا ’ دن ہے، ہم غزہ امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’ایسی باتیں جو سیکڑوں سالوں سے، ہزاروں سالوں سے جاری ہیں، ہم بہت ہی قریب ہیں اور بہت زیادہ قریب ہو چکے ہیں۔

انہوں نے امن کے عمل میں نیتن یاہو کے کردار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ’ ہم نے مل کر اچھا کام کیا ہے، اور کئی دیگر ممالک کے ساتھ بھی، اور یہی اس صورتحال کو حل کرنے کا طریقہ ہے۔’

ٹرمپ نے کہا کہ ان کا ہدف صرف غزہ پٹی ہی نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن ہے، انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کے ساتھ میں نے ایران، ابراہم معاہدوں اور غزہ تنازع کے خاتمے جیسے مسائل پر بات کی ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ’ یہ بڑے منظر نامے کا حصہ ہے، جو کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن ہے … آئیے اسے ‘ابدی’ امن کہتے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ ’ علاقے میں ہمارے دوستوں اور شراکت داروں سے وسیع مشاورت کے بعد باضابطہ طور پر امن کے لیے اپنے اصول جاری کر رہا ہوں اور لوگوں نے واقعی انہیں پسند کیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ میں عرب اور مسلم ممالک کے کئی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس تجویز کی تیاری میں شاندار حمایت فراہم کی۔

صدر ٹرمپ نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے اپنا 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے اس منصوبے میں حصہ لیا ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ منصوبے کے حصے کے طور پر تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر واپس کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حماس کو غیر مسلح کر دیا جائے گا۔ غزہ کو ’غیر عسکری‘ بنایا جائے گا اور اسرائیل سکیورٹی کا دائرہ برقرار رکھے گا۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں ایک پرامن سویلین انتظامیہ ہوگی۔

ٹرمپ نے کہا کہ حماس کا خطرہ ختم ہو جائے گا، عرب اور مسلم ممالک حماس کے ساتھ بات چیت کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ امریکی صدر کی سربراہی میں امن بورڈ اس منصوبے کی نگرانی کرے گا، انھوں نے مزید کہا کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بورڈ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ اس منصوبے سے اسرائیل کے جنگی مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حماس کے غزہ میں رہنے کے لیے یہ ’خوفناک‘ جنگ نہیں لڑی گئی۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ آج کی ملاقات نہ صرف غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امن بات بات چیت کے لیے بھی ایک اہم قدم ہے۔

نتن یاہو نے امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کا کہ ’میں غزہ میں جنگ کے خاتمے کے آپ کے منصوبے کی حمایت کرتا ہوں۔ ‘

اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’یہ منصوبہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اسرائیل کو دوبارہ حماس کی طرف سے خطرہ نہیں ہے۔‘

انھوں نے اسرائیل کے فوجیوں کا شکریہ ادا کیا جو ان کے بقول ’بربریت‘ کے خلاف ’شیروں کی طرح‘ لڑتے ہیں۔

نتن یاہو کا کہنا ہے کہ تمام یرغمالیوں کو زندہ اور مردہ 72 گھنٹوں کے اندر واپس کر دیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’تمام فریقین کو پرامن طریقے سے ایسا کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے لیکن اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کر دیتی ہے یا وہ اسے قبول کرتے ہیں تو اس پر عمل نہ کریں تو ’ہم کام مکمل کر لیں گے‘۔

انھوں نے کہا ،’یہ آسان طریقے سے ہو یا یہ مشکل طریقے سے، لیکن یہ کیا جائے گا۔‘

نتن یاہو کا کہنا تھا کہ انھوں نے حماس کے غزہ میں رہنے کے لیے یہ ’خوفناک‘ جنگ نہیں لڑی۔

انھوں نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ میں ’بنیاد پرست اور حقیقی تبدیلی‘ سے گزرے بغیر کوئی کردار نہیں رکھ سکتی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ امن منصوبہ غزہ اور پورے مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے ’ایک نئی شروعات‘ ہو سکتا ہے اور ابراہم معاہدے کو ’دوبارہ متحرک کیا جا سکتا ہے‘’ اور اسے دیگر عرب اور مسلم ممالک تک پھیلایا جا سکتا ہے۔ ‘

دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ اسے امریکی جنگ بندی کی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔

حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس گروپ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثوں کے ذریعے جنگ بندی کا کوئی اقدام موصول نہیں ہوا ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ حماس غزہ میں جنگ کا خاتمہ کرنے والی کسی بھی تجویز کا مطالعہ کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی معاہدے میں فلسطینیوں کے مفادات کا تحفظ ہونا چاہیے، غزہ سے اسرائیلی انخلا کو یقینی بنانا چاہیے اور جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

گروپ کے ہتھیاروں کے بارے میں پوچھے جانے پر عہدیدار نے کہا کہ ’جب تک قبضہ جاری رہے گا مزاحمت کے ہتھیار ایک سرخ لکیر ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہتھیاروں کے مسئلے پر صرف ایک ایسے سیاسی حل کے فریم ورک میں بات کی جا سکتی ہے جو 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت دیتا ہے۔‘

Share This Article