ایران کی وزارت خارجہ نے اتوار کو امریکہ سے عمان میں ہونے والے مذاکرات کو ’بے معنی‘ قرار دے کر منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کایا کالس کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے حالات میں جب صیہونی حکومت کی بربریت جاری ہے، ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا جاری رہنا بلا جواز ہے۔‘
انھوں نے ایران کے ’پرامن‘ ایٹمی پروگرام کے بارے میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی حالیہ قرارداد پر بھی تنقید کی جو کہ تین یورپی ممالک اور امریکہ کی شمولیت سے پیش کی گئی تھی اور اسے ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف ’صیہونی حکومت‘ کے معاندانہ اقدامات کا بہانہ اور بنیاد قرار دیا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغی نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مذاکرات کا اگلا دور منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق ’موجودہ صورتحال میں ہماری بنیادی توجہ دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اصولی طور پر ایک ایسی جماعت کے ساتھ بات چیت میں حصہ لینا بے معنی ہو گا جو حملہ آور کی سب سے بڑی حمایتی اور ساتھی ہو۔‘
ایران نے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان ممالک نے جاری جنگ میں اسرائیل کے کا دفاع کیا تو ایسی صورت میں پھر تہران ان ممالک کے خطے میں موجود فوجی اڈوں کو ہدف بنائے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایرانی میڈیا سے متعلق یہ خبر دی ہے کہ ایران نے ان تینوں ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر ایرانی جوابی حملوں کو روکنے میں نتن یاہو کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے باز رہیں۔
اطلاعات کے مطابق اگر ان ممالک نے اسرائیل کی مدد کی تو پھر اس کے جواب میں اس خطے میں موجود ان ممالک کے فوجی اڈوں کا ہدف بنائے گا۔
ڈاؤننگ سٹریٹ یعنی وزیراعظم ہاؤس ک طرف سے ان تبصروں کا جواب نہیں دیا مگر آج صبح تک یہی صورتحال تھی کہبرطانیہ نے ان حملوں کے خلاف اسرائیل کے دفاع کی کوششوں سمیت کسی بھی فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لیا ہے۔
بی بی سی نامہ نگار برائے سیاسی امور جیک فین وک نے کہا کہ ’مجھے کل بتایا گیا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے برطانیہ سے اس قسم کی مدد کی کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔ سرکاری ذرائع آج صبح اس بات کی تصدیق نہیں کر رہے ہیں کہ آیا اب بھی سب ایسا ہی ہے۔‘
واضح رہے کہ ماضی میں جب ایران نے اسرائیل کو ڈرونز سے نشانہ بنایا تو برطانیہ نے قبرص سے آر اے ایف ٹائفون طیارے بھیجے تاکہ انھیں مار گرایا جا سکے۔‘