جبری گمشدگی کیس: یونیورسٹیوں سے اٹھائے گئے بچے افغانستان نہیں گئے، اسلام آبادہائیکورت

0
25

اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس محسن اخترکیانی کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بنچ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں والوں کے لیے پچاس پچاس لاکھ روپے کے چیک لے کر آئیں۔

تین رکنی بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر شامل ہیں۔

جمعرات کے روز ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آج ہم آرڈر کر رہے ہیں، جن افراد کو کمیشن جبری گمشدہ ڈکلئیر کر چکا ہے، ان افراد کی فیملی کے لئے پچاس پچاس لاکھ روپے کے چیک لے کر آئیں۔

عدالت نے جبری گمشدگیوں سے متعلق بنائی گئی کمیٹی کو ان کیمرہ بریفنگ کے لیے طلب کرلیا ہے اس کمیٹی میں آئی ایس آئی ایم آئی اور آئی بی کے نمائندے شامل ہیں۔

جمعرات کے روز درخواست گزار کی وکیل ایمان زینب مزاری، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل، نمائندہ وزارت دفاع برگیڈیئر(ر) فلک ناز اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ 10 جنوری کو اٹارنی جنرل نے اس عدالت میں بیان حلفی دیا تھا کہ کوئی بندہ لاپتہ نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ نو ماہ گزرنے کے باوجود لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔

ایمان مزاری نے دعویٰ کیا کہ اگست کے مہینے سے لیکر اب تک 187 لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔

لارجر بینچ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کشمیر، افغانستان یا کسی جیل میں ہیں، زندہ ہیں یا مردہ ہیں، بتانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے کچھ فہرستیں عدالت میں جمع کروائیں ہیں، اس میں کچھ لوگ افغانستان گئے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ لاہور یا کراچی یونیورسٹی سے جن بچوں کو اٹھایا گیا وہ افغانستان نہیں گئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ہمیں لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کا میکنزم وزارتِ دفاع بنا سکتی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا وزارتِ دفاع اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پالیسی بنا کر وفاقی حکومت کو دیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here