کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاج جاری

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو5529 دن ہو گئے ہیں ۔

کوہ سیلمان سے طلباء کا ایک وفد جن میں لطیف بلوچ صدام بلوچ اسفند جان بلوچ سلیم جان بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ پرامن جدوجہد اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اپنے تاریخی تسلسُل کے ساتھ آج بام عروج پر ہے پاکستانی ریاست اپنی شکست خوردگی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر انتہائی گھناؤنے طریقے سے انسانیت سوز تشدد پر اتر آیا ہے پچپن 75000 سے زائد بلوچوں کو لاپتہ کر کے عقوبت خانوں میں تشدد کانشانہ بنارہی ہے سیں 20000 سے زائد بلوچ سیاسی کارکنوں دانشوروں طلباء ڈاکٹر وکلاء کو جبری اغوا اور جبری لاپتہ کر کے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا گیا لاکھوں بلوچوں کو فوجی آپریشن کے ذریعے اپنے گھر بار چھوڑ ے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور آپریشن کو مزید وسعت دی جا رہی ہے۔

انہوںنے کہا کہ مسلسل جبر کے با وجو د پاکستانی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور نام نہاد سول سوسائٹی نام نہاد میڈیا نام نہاد آزاد عدلیہ کے کانوں کو جوں تک نہیں رینگی مگرا بلوچ فرزندوں کے مقدس ہونے عالمی برادری کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بلوچ کی آواز سنہیں اس لیے عالمی برادری زبلوچ قوم کی اس آواز پر اس نام نہاد جمہوریہ ریاست کو انتہائی سخت نوٹس جاری کر دی ہے بلوچ وطن کے فرزندوں کی عظیم قربانیوں کی کی بدولت بلوچ پر امن جد جد فرزندوں کی بازیابی کا سورج اپنی تمام تر شادمانی سے طلوع ہوگا۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ہم اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان کی ریاستی درندگی بربریت دہشت گردی اور انسانی حقوق کی سنگین یا مالیوں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اُٹھائیں اور بلوچ نسل کشی شہری آبادیوں پر بمباری اغوا نما گرفتاریوں جبری گمشدگیوں سنج شدہ لاشوں کی برآمدگی کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان پر دباو ڈالیں اور پاکستان کی امداد فور آروک دیں کیونکہ وہ عالمی دنیا سے بھیک مانگتا پھرتا ہے اور اس بھیک کو ریاست اپنی بھوک مٹانے کے لیے بلوچستان کی کمزور عوام کے خلاف بمباری کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

Share This Article
Leave a Comment