افغانستان : طالبان کا خواتین کوبغیرحجاب کے میڈیا پر نہ آنے کا انتباہ

0
168

افغانستان میں طالبان حکام نے خواتین صحافیوں اور خواتین کو انتباہ کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر میڈیا پلیٹ فارمز پر جانے سے اجتناب کریں اور اس وقت تک میڈیا پر نہ آئیں جب تک انہوں نے ضابطے کے مطابق لباس نہ پہنا ہوا ہو جس میں صرف ان کی آنکھیں ہی دکھائی دیں۔

افغانستان جرنلسٹس سینٹر، یا اے ایف جے سی نے، جو کہ اس ملک میں صحافتی آزادی کی ایک تنظیم ہے، کہا ہے کہ یہ انتباہ منگل کو طالبان کی نیکی کے فروغ اور برائی کو روکنے یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت کے سربراہ محمد خالق حنفی نے کابل میں صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران جاری کیا۔

اے ایف جے سی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں، وزارت کے ترجمان عبدالغفار فاروق کے حوالے سے میٹنگ میں سفارش کی کہ وہ باحیا لباس کے ضابطے کی پابندی کریں، جس میں خواتین کی تصویروں کو سیاہ لباس اور نقاب میں دکھایا جائے، جن کے چہروں کا زیادہ تر حصہ ڈھکا ہوا ہو ، ان کی صرف آنکھیں دکھائی دیں۔

تنظیم نے کہا ہے کہ فاروق نے یہ بھی مشورہ دیا کہ ٹیلی ویژن نیوز چینلز ایسی خواتین کے انٹرویو کرنے سے گریز کریں جو حجاب کی پابندی نہیں کرتیں یا اپنے چہرے کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپتیں ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حنفی نے انتباہ کیا کہ ان ہدایات پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے میڈیا میں خواتین کے کام کرنے پر ممانعت کی جا سکتی ہے۔

وزارت کے حکام نے ابھی تک رپورٹ کیے جانے والے اجلاس یا اس کی تفصیلات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

میڈیا کے نگران گروپ نے کہا ہے کہ وہ افغان میڈیا کی حالت اور خواتین پر میڈیا میں کام کرنے پر پابندی کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سخت فکر مند ہے، جنہیں پہلے ہی اپنے کام کے حوالے سے بڑے پیمانے پر پابندیوں کا سامنا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ حنفی کی وارننگ بالآخر افغانستان میں میڈیا سے خواتین کو ختم کرنے پر منتج ہو سکتی ہے، جہاں طالبان نے زیادہ تر خواتین کی تعلیم اور کام کرنے یا عوامی زندگی تک رسائی پر پہلے ہی بڑے پیمانے کی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔

اے ایف جے سی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مقامی میڈیا کے پروفیشنلز کو کام کے ان سخت حالات کا سامنا کرنا ہے جو ان میڈیا گائیڈ لائنز پر سختی سے عمل درآمد کا تقاضا کرتی ہیں جنہیں طالبان نے 2021 میں اقتدار پر دوبارہ قبضے کے بعد متعارف کرایا تھا۔

افغان جرنلسٹ سینٹر نے کہا ہے کہ موجودہ ہدایات میں سے کچھ خواتین کو قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشنوں میں کام کرنے سے روکتی ہیں، کام کی جگہوں پر صنف کی بنیاد پر علیحدگی کی ضرورت کا نفاذ کرتی ہیں، اور بعض صوبوں میں خواتین کی آوازوں اور فون کالز کو نشر کرنے پر پابندی لگاتی ہیں۔

طالبان کے قبضے کے بعد اے ایف جے سی نے اپنا دفتر افغانستان سے باہر منتقل کر دیا تھا لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کے کارکن اب بھی افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں کے مقامی میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔

طالبان نے ٹیلی ویژن کے ان ڈراموں پر پابندی عائد کر دی ہے جن میں خواتین اداکارائیں شامل ہوں اور ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے والی خواتین کے لیے اسلامی حجاب پہننا لازمی کر دیا گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here