پاکستان کے صوبہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء لواحقین کی احتجاجی کیمپ جاری ہے جسے 4932 دن ہوگئے ہیں۔
حب چوکی سے سیاسی و سماجی کارکنان غفور بلوچ، بیبرگ بلوچ سمیت متعدد خواتین نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے شرکا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ زندگی با مقصد ہو تو اس اس مقصد کو حاصل کرنا منزل سے اس کائنات میں بے حساب انسان جنم لیتے ہیں اور ایک دن موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں لیکن ان میں عظیم انسان وہ ہے جو دوسروں کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے اس امید کے ساتھ کہ اس کی موت اس کی زندگی کے آرزو کو پورا کر دیگی کے میرے بعد انے والی مشکل کو اس قربانی کا پھل مل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی قربانیوں کو مدنظر ہوئے اگر بخور مطالحہ کریں تو ہمہیں بلوچ سرزمین ہزاروں شہدا ملیں گے جنہوں نے اپنی زندگی درتی ماہ کی سلامتی اور حفاظت کے لئے قربان کر کے مزموم مقاصد کو شکست دیتے رہے اس درتی ماہ کی سلامتی اور حفاظت پر بلوچوں کے کئی ہزاروں پیرو ورنا بچے خواتین نے بے جام شہادت نوش کیے ان میں 18 سال سے لیکر 80 سال تک کہ لوگ شامل ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی میں روز بہ روز اضافہ شدت سے اضافہ ہوتا جارہا ہے جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کے برآمدگی کے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے اور لاپتہ اور لاپتہ بلوچوں کے اہل خانہ کو سنگین قسم کی دھمکیاں دی جارہی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قومی تاریک کابیوں اور تسلسل کے ساتھ ساتھ پاکستانی اداروں کی بربریت بھی شدت کے ساتھ تیزی ہورہی ہے پہلے سے جاری جبری گمشدگیاں اور لاشیں پھینکنے میں تیزی آچکی ہے جبکہ پاکستان کے فوجی آپریشن کی تیاریوں میں لگے ہے ایک دہائی سے ذائد کے تسلسل نے پرامن جدجہد نے بلوچ عوام میں مقبول بنا دیا ہے آج بلوچ معاشرے کا ہر طبقہ پیاروں کی بازیابی کے لئے پرامن جدجہد میں شامل ہو چکا ہے جبکہ پاکستانی بربریت اور سفاکیت اور چھ دہائیوں پر محیط استحال نے بلوچ گھر کو فناثر کر دیا ہے۔