مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ قوم کی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں آئے روز شدت آ رہی ہے، ماروائے آئین حراستی قتل و اجتماعی بلوچ نسل کشی کو ادارہ سنگر نے اپنی محدود وسائل کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ادارہ سنگر کی جو کارکردگی گزشتہ عرصوں میں رہا ہے، مستقبل میں نہ صرف اسی تسلسل کو برقرار رکھا جائے گا بلکہ جدت کی جانب مزید پیش رفت کی جائے گی تاکہ بلوچ اور بلوچستان کے ساتھ دیگر محکوم اقوام کو درپیش مسائل کے اجراء کو بروقت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر صحافتی میدان میں متحرک اداروں سے ہم آہنگی کے ذریعے ان کی آواز بن کر اپنی فرائض کو نبھانے کی کوشش کی جائے گی۔
جبرواستبداد کیخلاف انسانی مزاحمت کا پیدا ہونا نا گریز ہے۔ خصوصاً ایسے سماجوں اور اقوام میں جہاں آزاد باوقار اور مساوی حیثیت میں زندہ رہنا عمومی مزاج اور نفسیات کا نمایاں خاصہ ہو وہاں محکومی وجبر کی صورتحال کو زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ بلوچ قوم بھی کچھ ایسا ہی مزاج رکھتی ہے، بلوچ سر زمین اپنی معاشی، سیاسی وجغرافیائی حوالے سے انتہائی قدر وقیمت کی حامل ہونے کے ناطے متعدد بار بیرونی استعماری یلغار سے دو چار ہوئی ہے، مگر ہر جارح کوبلوچ قوم کی سخت جان مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے باعث استعماری طاقتیں ہمیشہ کیلئے بلوچستان کو اپنے زیر قبضہ نہیں رکھ سکیں، کیونکہ بلوچ قوم نے بیرونی تسلط کو قبول نہ کرتے ہوئے اس وقت تک مزاحمت کی جب تک اس سے نجات حاصل نہ کی گئی۔ پر تگیز یوں اور انگریزوں سمیت مختلف حملہ آوروں کے بعد پاکستانی جبری الحاق یا قبضے سے لے کر آج تک بلوچ قوم اپنے آزاد وجداگانہ قومی تشخص اور اقتدار اعلیٰ کی بحالی کیلئے مسلسل بر سر پیکار ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی ریاست کی طرف یہاں سفاکانہ فوجی کارروائیاں روز کا معمول بن چکی ہیں، مگر یہ اس لحاظ سے مکمل ناکام رہیں کہ بلوچ قوم کے دل ودماغ میں اپنی سر زمین و ثقافت سے گہری محبت اور آزادی کی تڑپ کو کچلا نہیں جا سکا بلکہ ہر فوج کشی کے دوران جنم لینے والی ظلم کی داستانوں نے آنے والی بلوچ نسل میں اپنے آباؤ اجداد کی قتل وغارت گری، تہذیب وثقافت کی بے توقیری کیخلاف بدلے کی آگ و نفرت اور اپنی سر زمین وقوم کی آزادی کی تڑپ کو مزید شدید بنا دیا۔ نئی نسل نے ماضی کو فراموش کرنے کی بجائے تاریخ کے سبق کو اچھی طرح یاد رکھا ہے۔
غیر فطری ریاست جسے برطانوی آباد کاروں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے قائم کیا مگر آج بحیثیت قابض وہ بلوچ عوام سمیت سندھیوں،پشتونوں،کشمیریوں و دیگر محکوم اقوام و مذہبی فرقوں کے ساتھ جو جارحیت اپنائے ہوا ہے اسے کسی میڈیا میں جگہ نہیں دی جاتی،اپنے مقاصد کے لیے قائم کیے جانے والی غیر فطری ریاست کی مظالم پر عالمی برادری کی خاموشی انکی مجرمانہ غفلت کو ظاہر کرتی ہے حالانکہ اس ضمن میں انہوں نے خود قانون سازی بھی کی ہیں مگر ان قوانین کی پیروری نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی فوج بلوچ قوم کی اجتماعی نسل کشی میں بے لگام ہے۔
اقوام متحدہ کو اپنے قوانین کی پیروی کرتے ہوئے بلوچ قوم پہ ہونے والے پاکستانی مظالم کا سختی سے نوٹس لینا چائیے۔اس ضمن میں عالمی قوانین یہ کہتی ہیں کہ جس کا مسودہ انٹرنیشنل کنونشن 20 دسمبر 2006 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے قانونی شکل میں منظور کر لیاگیا۔ اس قانون کی رو سے متاثرہ خاندانوں کوReparations حاصل کرنے کے لئے، اور اپنے پیاروں کی گمشدگی کے بارے میں حقیقت جاننے اورانکی تلاش اوران کاسراغ لگانے کا حق حاصل ہے۔اقوام متحدہ کا یہ قانون جبری گمشدگیوں کے حوالے سے واضح طور پہ یہ کہتا ہے کہ”ایسی گرفتاری، تحویل میں لینا یا اغوا کرنا یا کسی شخص کو آزادی سے محروم کرنا جو کہ ریاست کی ایجنسیوں یابراہ راست فوج کی طرف سے ہو اور اس کے نتیجے میں اس شخص کے بارے میں معلومات کسی کو بھی میسر نہ ہوں اور وہ شخص قانون کے دائرہ کار سے بھی باہر ہویہ جبری گمشدگی کہلاتی ہے۔“کنونشن کے مطابق”جبری گمشدگی کو کسی بھی قسم کے حالات چاہے حالت جنگ ہو یا جنگ کا خطرہ ہو، اندرونی سیاسی عدم استحکام ہو یا ایمرجنسی نافذہوان میں سے کسی بھی شئے کوبنیاد بناکرجبری گمشدگی کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔“
اس کنونشن میں مزید یہ بھی درج ہے کہ”ریاست لازمی طور پر ہرجبری گمشدگی کی ذمہ دارہوتی ہے اس لئے اسے بھی کنونشن میں فریق بنایا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے ان قوانین کے باوجود بلوچستان میں یہ انسانی بحران آئے روز شدت اختیار کررہی ہے۔
کسی بھی قوم کی معاشی،طبقاتی،یا انقلابی جہد میں میڈیا اول دستے کا کردار ادا کرتا ہے،خاص کر اس جدید دور میں،جریدے و پرچوں سے شروع ہونے والی میڈیا اب ڈیجیٹل ہو گیا ہے۔انٹرنیت،سوشل میڈیا و دیگر ذرائیوں نے میڈیا کے کام کو آسان بنانے کے ساتھ اس دوڑ میں تیزی لاتے ہوئے ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ 2023 میں ہماری کوشش رہے گی کہ ادارہ سنگر بھی تمام دستیاب وسائل سے اس دوڑ میں جدت لائے تاکہ اس انقلابی دور میں اپنی سہی کردار کو بھر پور طریقے سے ادا کیا جا سکے، اس سفر میں اپنے شہید ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی جسکی بنیاد پر اس ادارے کو قائم کرنے کے ساتھ وقت کے ساتھ اسے تناور میڈیا بنانے کے لیے 14 سال کا کٹھن سفر طے کیا گیا،کتابی سلسلوں سمیت ادارہ سنگر اپنے کاموں میں مزید تیزی کے ساتھ مقبوضہ بلوچستان میں جاری دشمن کی جارحیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتی رہے گی۔
٭٭٭