بلوچ جبری گمشدگیوں پر عالمی اداروں اور میڈیا کا کردار مایوس کن ہے، ماما قدیر

0
156

بلوچستان کے ادرلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے لواحقین کی بھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے جسے کو 4901 دن ہو گئے ہیں۔

نیشنل پارٹی کے سابقہ صوبائی صدر حاجی نیاز محمد لانگو، بی ایس او پچار کے ڈاکٹر طارق، ابرار حسین اور این ڈی پی کے ارسلان بلوچ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پروی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کفن میں لپٹے ہزاروں چہروں پہ اطمیان اور مسکراہٹ اس بات کی گوائی دیتے ہیں کہ وہ اپنی مادر وطن کے سامنے سرخ رو ہوگئے اور تمام بلوچ فرزنداں کے لیے یہی پیغام چھوڑا کہ صرف لفاظی نہیں بلکہ ہمیں عملی جدجہد کرنا ہوگی قوم کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے نیک نیتی مخلصی سے اپنے فرائض ادا کرنے ہونگے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی دہشتگری جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشوں میں ملوث ریاستی ادارے آج میڈیا کی خاموشی اور ذمہ داروں کی بے حسی کو اپنا سہارہ بنائے ہوئے ہیں اور نہ انہیں نہ کسی احتجاج کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی آواز پر کان دھرتے نظر آتے ہی۔ بلوچستان میں انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی پامالی روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں آئے روز ماورائے قانون چھاپے گرفتاریاں جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشیں جیسے واقعات بلوچستان کی صوعت حال کی سنگتی کے واضع علامتیں ہیں اس تشویش ناک صورت حال میں اگرچہ کسی بھی عالمی میڈیا ملکی میڈیا اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے اب تک جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل افسوس حد تک ناکافی ہے کسی بھی انسان کو جیسے انصاف سچائی عالمی قوانین اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر پر اعتماد ہے اس کے لیے عالمی اداروں اور میڈیا کا یہ کردار انتہائی مایوس کن ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں شدت اختیار کرتی ہوئی جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے میں ریاستی ادارے براہ راست ملوث ہیں جس کا اقرار ریاستی میڈیا عدلیہ سمیت پاکستانی عالمی انسانی حقوق کے ادارے متعدد بار کر چکے ہیں اس کے باوجود بھی تاحال کوئی قابل ذکر اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔ وی بی ایم پی عالمی میڈیا سے برائے راست مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بلوچستان کی سنگین صورت حال اور بلوچ عوام کی احتجاج کا نوٹس لے اور بلوچستان میں ریاستی دہشتگری کے واقعات کو سامنے لاہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here