شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ
قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..)
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن
”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)
(دوسری قسط)
باب اول
(بنیادی معلومات)
ایک عظیم ہستی:۔
بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت بڑی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی انقلاب کے بعد وسائل کی بہتات کی وجہ سے تو یہ گل زمین استبدادی اور سامراجی قوتوں کے نشانے پہ رہا ہے۔صنعتی انقلاب سے قبل گلزمین بلوچ کو خون آلود کرنے کے لیے ایرانی، عرب، پرتگیزی، منگول اورافغانوں نے نشانے پہ رکھاجبکہ صنعتی انقلاب کے اوائل سے انگریزوں نے یہاں قدم جمانے شروع کیے۔انگریز تو اپنا صد سالہ دور آمریت گزار کے چلے گئے لیکن انہوں نے جاتے جاتے کالے انگریزوں (پنجابیوں) کو اس سرزمین اور یہاں بسنے والوں پہ صور اسرافیل نازل کرنے کے لیے پہرہ دار بنا کے بلوچ قوم کو اندھیری رات کا مسافر بنادیا۔
ان قبضہ گیروں کے خلاف ہر دور میں گل زمینِ بلوچ سے ایسے فرزندوں کا ظہور ہوا ہے جنہوں نے وطن کے دفاع اور بقاء کی جدوجہد میں سروں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ وہ چاہے بلوچ سرزمین کے دفاع کے لیے عربوں کے خلاف بابا میر حمزہ بلوچ کی جدوجہد ہو، پرتگیزیوں کے خلاف حمل جیئند کا کردار ہو، انگریزی استعمار کے خلاف میر مہراب خان، غلام قادر مسوری، نورا مینگل، کوہستانِ مری کے باجبروت فرزندوں کی تحریکِ آزادی کی جنگ ہو بلوچ خان کی جدوجہد، ایرانیوں کے خلاف داد شاہ یا پاکستانی قبضہ گیر کے خلاف آغا عبدالکریم،شہید بابو نوروز خان، شہید قمر الدین، شہید حمید بلوچ، شہید نواب اکبر خان، شہید بالاچ، شہید ڈاکٹر منان یا دیگر شہداء کی جدوجہد، ان تمام ہستیوں نے اپنے عمل اور کردار کی بدولت تاریخ کا رخ موڑ تے ہوئے جدوجہد کو نئے خطوط پر استوار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیے ہیں۔ انہی کی طرح مند بلوچستان میں جنم لینے والا بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی شہید غلام محمد بلوچ کا نام بھی ان عظیم ہستیوں کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے لازوال قربانیوں کی بدولت تاریخ کو ایک نئے سانچے میں ڈالنے کا کارنامہ سرانجام دیا۔
پیدائش:۔
شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ یکم جنوری1959ء کو بلوچ قومی شاعر ملا فاضل کے شہر مند میں محمدایوب بلوچ ولد ملا غلام محمد بلوچ کے گھر میں جنم لیا۔
شہید غلام محمد بلوچ جس وقت پیدا ہوئے اس دوران بلوچ ایوبی مارشل لاء کے ظلم و جبر کے سائے تلے زندگی گزاررہے تھے، بلوچ وطن میں بلوچوں کے خلاف خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ شہیدنواب نوروز خان سر پہ کفن باندھ کے پاکستانی قبضہ کے خلاف میدان عمل کا رخ کرچکا تھا۔
شہید غلام محمد بلوچ،بلوچ شیرزال ماؤں بہنوں اورفرزندوں کے بہتے ہوئے لہو کی موجوں میں شیرزال ماں (بی بی حیرنساء) کی شکم میں جنم پاکرغلامی کی زنجیروں کے سائے میں پل کرجوان ہوا۔ ولادت کے وقت گھروالوں نے اسم گرامی نصیراحمد رکھا جو میرنصیرخان نوری کے نام سے منسوب تھا مگر والدصاحب نے اپنے والد محترم کو خواب میں دیکھا کہ ایوب اس بچے کا نام غلام محمد رکھیں تو صبح ہوتے ہی فوراً بچے کا نام اپنے والد محترم کے دئیے گئے بشارت کی وجہ سے غلام محمد رکھا تو والدہ نے والدصاحب سے پوچھا کہ ماجرہ کیا ہے کہ جلدی بچے کا نام تبدیل کردیا تو ابا کوئی جواب دئیے بغیر مسکراتے ہوئے باہر چلے گئے اور صدقہ کرنے کے لیے دو(2) بکرے لا کے ذبح کردیا۔
بچپن:۔
اس وقت ہم دو بھائی تھے میں اور غلام محمد۔ غلام محمد مجھ سے ۵ سال چھوٹا تھا۔ بچپن میں کبھی کھبارغلام محمد کے ناک سے خون رستا تھا۔ ایک دن ابا غلام محمد کو ہسپتال لے گئے تو میں بھی ساتھ تھا۔یہ ہسپتال جوانگریز فوجیو ں کاکیمپ ہُواکرتاتھا مگر اِس دور میں پاکستانی ملیشیا کیمپ میں تبددیل ہوچکا تھا۔ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد جب ہم واپس گھر جارہے تھے ہسپتال کی چاردیواری میں انگریز دور کے چار مقبرے نظر آئے ابا انکی جانب چلے گئے اور دو قبر پر فاتحہ پڑھنے لگا، میں اور شہیدغلام محمد ساتھ کھڑے رہے ابا فاتحہ پڑھکر فارغ ہوا تو میں نے ابا سے پوچھا کہ کیا یہ ہمارے رشتہ داروں کے مقبرے ہیں اباجان کہنے لگا ہاں بیٹا یہ ہمارے وہ بہادر، دلیر رشتہ دار اور وارث ہیں جنہوں نے انگریزفوج سے دوبدو جنگ کرکے شہادت کا عظیم رتبہ حاصل کیے اورسامنے جودیگردو قبرین دیکھ رہے ہو،یہ ان انگریزوں کی قبریں ہیں جنہیں ان دوبہادر شہیدوں نے بلوچی بندقوں (ڈھاڈری)سے اس وقت ان پہ گھات لگا کرحملہ کیاجب انگریز ی کیمپ میں فوجیوں کا پریڈ جاری تھا۔اس حملے میں ان دو انگریزوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد یہ بہادر بلوچ بھی بلوچ قوم کی آزادی کی تاریخ کا حصہ بن کرقومی شہیدوں کی صفحوں میں شامل ہوگئے۔
دورانِ گفتگو جب میں نے چھوٹے بھائی کی طرف دیکھا تو وہ میرے اور ابا جان کی اس گفتگو کے دوراں خاموش اور پرسکون انداز میں کھڑا ہماری باتیں سن رہا تھا۔ میں پھر اباسے پوچھنے لگا کہ انہوں نے کیوں انگریزوں کو مارا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس لڑائی میں ہماری موت بھی یقینی ہے؟ تو ابا کہنے لگا کہ بیٹا ان بہادروں نے انگریزوں کو اس لیے مار کر خود شہید ہوگئے کیونکہ انگریزوں نے بلوچستان پر زبردستی قبضہ کرلیاتھا اور خان قلات میر مہراب خان کو ساتھیوں سمیت شہیدکرکے ان انگریزوں نے ہمیں جبراًاپنا غلام بنالیاتھا اور آج تک ہم غلامی کا بوجھ اٹھا کے یہ ذلت آمیز زندگی جی رہے ہیں۔ ایک دم غلام محمد اپنی خاموشی توڑ کرچلانے لگا۔۔۔غلام۔۔۔ غلام۔۔ تو میں اورابا غلام محمد کی طرف متوجہ ہوے ابا نے غلام محمد کو گلے لگا لیا بیٹا کیا ہوا۔؟ پھر غلام محمد کہتارہا۔۔ غلام۔۔ غلام۔۔۔ہم غلام ہیں کیا؟ بھلا کیو ں ہم غلام ہیں؟اور اس غلامی کے خلاف صرف ان دو بہادرفرزندوں نے انگریزوں سے لڑائی لڑی؟۔۔باقی مند کے بلوچ صرف ادیروں پر آکرفاتحہ خوانی کرتے ہیں کیوں؟۔۔۔ آپ لوگ انگریزوں سے غلامی کے لئے نہ لڑیں؟۔۔تو میں اور ابا جان حیران رہ گئے اور میں نے غلام محمد کو سینے سے لگایا۔تودیکھا کہ اسکی لال آنکھیں انگاریں بر س رہے تھے اور مجھے کہنے لگا کیا ہم ہمیشہ اسی طرح غلام بن کرزندہ رہنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں لالا۔؟ میں نے کہا میری جان نہیں نہیں، تووہ کہنے لگا کیا ہمارے نصیب میں آزادی ہوگی تو اباجان نے کہا کہ ہاں بیٹا ہم آزاد ہونگے۔اور اس کے لیے قوم کو قربانی دینی پڑیگی۔جس طرح ان شہیدوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر اپنے لہو سے تاریخ رقم کی۔انہی کی طرح ہر بلوچ کو یہ فرض ادا کرنا ہوگا اور میرے لال ابھی تک بلوچ مائیں بانجھ نہیں ہوئیں ہیں ان شہیدوں کی طرح غلامی کے خلاف لڑنے والے ضرور پیدا ہونگے آپ(غلام محمد) کہنے لگے کاش کاش میں بھی۔
نہ مجھے اورنہ اباجان کوآپ(شہیدغلام محمد)کہ ادا کیے ہوئے یہ آخری الفاظ سمجھ آئے کہ کیوں آپ درمیان میں رک گئے
اور ہچکیاں لیتے رہے تو میں، ابااور شہیدغلام محمد جب گھرواپس آئے تو آپ کی لال آنکھیں دیکھ کر”ماں ”ایک دم کہنے لگی کہ میرے بیٹے کوکیا ہوا؟ شاید آپ نے ہسپتال یا راستے میں میرے پیارے بچے کو مارا ہوگا۔میں نے کہا نہیں اماں جان ابا نے نہیں مارا ہے۔تو ماں نے غصہ میں پوچھا پھرکیوں بچے کی آنکھیں اس قدر لال ہیں؟تو میں نے تمام ماجرا ماں کو سنایا تو ماں کہتی رہی کہ آئندہ بچے سے ایسی باتیں مت کریں اور نہ کبھی غلطی سے ان قبروں کے پاس لے جائیں۔فوراًآپ ماں سے مخاطب ہوئے کہ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔ ابا جان مجھے ہمیشہ ایسی کہانیاں سنایا کریں گے اور ایسی جگہوں پہ مجھے لے جایا کریگا۔۔ کیونکہ میرا جی چاہتا ہے کہ ہر وقت ان جیسے مقبروں کو دیکھوں اور انکی داستان سن لوں۔پھر آپ نے یہ عادت بنایا ابا جان سے ایسے قصے، کہانیاں سننے کی۔ اگر کبھی ابا کوئی کہانی نہیں سناتا تو ضد کرتے تھے۔ پھر رات کو ہمیشہ ابا کبھی چاکر رند کی داستان سناتے کبھی گہرام لاشاری، میر قمبر، بالاچ گورگیج، میر مہراب خان، میر نصیر خان نوری،حمل جیئند، میر بلوچ خان بلکہ ایسے تمام بہادر بلوچون کے قصے کہانیاں سنایا کرتے جنہوں نے مادر وطن کی بقاء، بلوچ قومی ننگ وناموس کی حفاظت،اور بلوچ روایات کو برقرار رکھ کردشمنوں سے لڑتے ہوتے جام شہادت نوش فرماکر آج تاریخ کے اوراق میں ان کا نام سنہرے الفاظ میں نوشتہ ہیں۔
میں نے کہیں بار شہید غلام محمد کو ان کہانیوں کے درمیاں جذباتی اندز میں دیکھا۔وہ ہمیشہ ان کہانیوں کو بڑے غور سے سنتا تھا جس کی وجہ سے جذبات کے لہر اس کے چہرے سے عیاں ہوتاتھا جہاں وہ اکثر اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹنے کی کوشش کرتا تھا ۔
اس عمر اور ذہن کی ناپختگی کی وجہ سے میں غلام محمد کی ان حرکتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا ۔کہ کیوں غلام محمد غور سے ان کہانیوں کو سن رہا ہے اور ہر شام جب ہم اسکول کے کام سے فارغ ہوتے تو آپ(شہید) ضد کرتے تھے مجھے باربار کہتے کہ لالا چلین ان شہیدوں کی زیارت کرتے ہیں تو ہم دونون بھائی ہمیشہ ان شہیدوں کے مقبروں پر جایا کرتے تھے آپ دیر تک ان شہیدوں کے سرہانے خاموش بیٹھ کر آہیں بھرتے اور نہ جانے کیا کیاسوچتے۔شہید کی یہ حالت دیکھ کر میں تنگ آجاتااور اکثر غلام محمد سے پوچھتا کہ آپ اپنے آپ کوکیوں پریشان کرتے ہو۔اگر تمہاری یہی حالت رہی تو میں آئندہ آپکو یہاں نہیں لے آؤنگا تو شہیدغلام محمد دبے ہوئے آواز سے کہنے لگتا نہیں نہیں لالا ایسا مت کرنا کیونکہ جب میں یہاں زیارت کرنے آتا ہوں تو میں ایک ایسی تسکین محسوس کرتا ہوں جس سے میرے رگ رگ میں گویاٹھنڈک اور سرور پہنچتا ہے اور اگر میں زیارت کرنے نہ آؤں تو سارادن مجھے چیں نہیں آئیگا میں اور آپنے آپ کوانگاروں میں چلتے ہوئے محسوس کرتا ہوں۔میرا دل کہتا ہے کہ میں بھی یہاں سر ررکھ کر سوجاؤں مجھے چھورکر بھائی جان آپ چلے جائیں۔ جب میں آپ کی یہ باتین سنتا تو میری آنکھیں نم ہوتی۔ مگر ذہنی ناپختگی کی وجہ سے کبھی یہ سمجھ نہیں پایا کہ آپ (شہیدغلام محمد) کے دل کے ارمان ہیں کیا؟ نہ میں جان سکا اورنہ ہی گھر والے کہ ایک ایسا وقت ہماری زندگی میں بھی آئیگا۔کہ آپ (شہیدغلام محمد) کا اسم گرامی ان عظیم شخصیات اور شہیدوں کی لمبی فہرست میں شامل ہوگا جنہوں نے اپنے لہوں سے اپنے قوم کی تاریخ لکھی ہیں۔
آپ اسی آگ میں جلتے جلتے کندن بن گئے جس کی وجہ سے آپ میں جذبہ حب الوطنی اور قوم دوستی کھوٹ کھوٹ کر
بھری ہوئی تھی۔ شہیدوں کی یاد، ان کے کارنامے،قوم اور وطن دوستی نے آپکو شاعری پر مجبور کردیا۔اللہ تعالیٰ نے آپکو انمول بصیرت عطا فرمائی تھی کہ اس کم عمری میں شاعری کے ساتھ ساتھ ایک سریلی آواز بھی بخشا۔ہمیشہ آپ اپنی سریلی آواز سے گنگناتے رہتے۔بازار میں اپنے ہم عمر دوستوں کی محفل ہویا تنہائی بس آپ گنگناتے رہتے۔سکول مین بھی لڑکے تفریخ میں آپ کو گانا گانے کوکہتے تو آپ ان کی فرمائش بھی کبھی رد نہیں کرتے۔
شاعری آپ کی وراثت تھی، آپ کا دادا ملا بہادر ایک نامی گرامی شاعر ہوا کرتا تھا۔جن کا ذکر ڈاکٹر حمید اپنی کتاب ”تاریخ
مکران” میں کرتا ہے۔آپ(شہیدغلام محمد) بچپن سے شاعری اور سیاست کاشوق رکھتے تھے کیونکہ والد صاحب بھی کلاسیکی شاعری کرتا اور سیاسی سوچ رکھتا تھاجس کی وجہ سے آپ کی سوچ میں مزید پختگی آتی گئی۔ اگر یہ کہہ دوں کہ آپ فقط پیدائشی شاعر تھے تو غلط ہوگا کیونکہ آپ کی زندگی اور آپ کے کردار نے یہ ثابت کردیا کہ آپ نہ صرف پیدائشی شاعر تھے بلکہ سیاست بھی جیسے آپ کو ورثے میں ملی ہو۔بچپن سے قومی اور حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہونے کی وجہ سے آپ نے نظریہ قوم پرستی کو اپنی زندگی کا فلسفہ بناڈالا۔ پچپن سے لیکر شہادت تک کے تمام ادوار میں مخلصی اور انقلابی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کرتے رہیں۔ اتفاقاًآپ کی شہادت کے بعد پسنی کا رہائشی آپ کا ایک دوست اور شاگردشہید صدیق عیدو سے میری ملاقات ہوئی تو شہید صدیق عیدو کہنے لگا کہ یوسف آپ لوگوں کا خاندانی شجرہ کیا ہے۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا بلوچ۔ توشہید عیدو آنسو بھری انکھوں سے مجھے دیکھ کر مسکرانے لگا میں نے پوچھا بھائی کیوں مسکرا بھی رہے ہو اور آنکھیں بھی نم ہیں۔توشہید عیدودرد بھرے لہجے میں کہنے لگا کہ مجھے شہید غلام محمد بلوچ کی وہ بات یاد آئی۔جب1987ء میں وہ بی ایس او کے قائم مقام وائس چیئرمین کی حیثیت سے تنظیمی دورے پر پسنی آیا۔ اس دوراں ساحلی بیلٹ میں بی ایس اوکہور گروپ کاراج تھا تو شہید تنظیم کے دوستوں اور پسنی کے عوام سے کارنر مٹینگ کررہاتھا تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ چیئرمین غلام محمد آپ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ شہید غلام محمد بلوچ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا واجہ میں بلوچ ہوں۔بزرگ نے غصے سے کہا کہ اتنا میں بھی جانتاکہ تم بلوچ ہو،انگریز نہیں۔ مگر بلوچوں کے کس قبیلے سے آپ کا تعلق ہے۔ تین بار بزرگ یہی سوال دہراتا رہااور ہر بار شہید غلام محمد کا ایک ہی جواب تھا کہ میں بلوچ ہوں۔ ایک غلام بلوچ۔ تو بزرگ نے اٹھ کر شہید غلام محمد کو گلے لگالیا۔ آج پھر آپ سے وہی الفاظ سن کر شہید غلام محمد کے مسکراتے ئے ہونٹوں سے نکلے ہوئے الفاظ یاد آئیں۔
شہید غلام محمد بلوچ کی زندگی پہ نظر ڈالی جائے تو اس کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے۔سماجی زندگی ہو یا سیاسی ہمیں ہرجگہ ایک بات مشترک نظر آتا ہے وہ ہے۔۔۔اس کی پرخلوص محبت جس کے ثبوت ان کی تقریروں،سیاسی و سماجی محفلوں اور اشعار میں واضح انداز میں نظر آتا ہے۔
ابتدائی دورِ طالب علمی اور آپ کی سنجیدگی:۔
ایوبی و یحییٰ خان دور کے مارشل لاء میں پلنے والے شہید غلام محمد کو1965ء میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے والد محترم محمد ایوب نے گورنمنٹ مڈل اسکول سورومند میں داخل کیا۔بلا کی ذہانت تھی آپ میں۔جیسے جیسے وقت گزرتاگیا، عمر کے ساتھ ساتھ آپ کی صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا ہوتا گیا۔شاعر ی میں تو اپنی مثال آپ تھے اب آپ کی نصابی سرگرمیوں سے بھی آپ کے اساتذہ متاثر تھے اور ہمیشہ آپ کی ذہانت کی داد دیتے تھے۔
قبضہ گیر ریاست کے آمرانہ دور حکومت میں جب پلوچ نواجوان طالب علموں نے نومبر1967ء میں بلوچ قومی محکومیت اورقومی غلامی کو مدنظر رکھ کر سیاسی جدوجہدکے ذریعے بلوچ حقوق کو حاصل کرنے کے لیے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھ دیاتو اس وقت آپ کی عمر فقط آٹھ(8) سال تھی۔
بی ایس او کی تشکیل کے کچھ عرصے بعدجب نام نہاد بلوچ لیڈروں نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مقبولیت دیکھی تو انہوں نے محسوس کیا کہ اگر ہمیں بلوچ سماج میں کامیابی مل سکتی ہے تو وہ فقط ان نوجوانوں کی تقسیم کی بدولت۔کیونکہ انہیں اس بات کاادراک تھا کہ اگر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اسی رفتار سے سفر کرتا رہا تو آنے والے دنوں میں بلوچ قوم کو قومی تحریک کے لیے حقیقی لیڈرشپ اسی پلیٹ فارم سے میسر ہونگے جس کی وجہ سے اس کے بعد سماج میں ہماری وہ حیثیت نہیں رہیگی جو آباؤ اجداد سے چلی آرہی ہے۔ اپنے ذاتی مفاد ات اور کامیابی کے لیے انہوں نے کچھ عرصے بعد بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو دولخت کردیا۔ بلوچ قو می سیاسی تاریخ میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا دولخت ہونا ایک المناک واقعہ تھا جہاں یہ بلوچ طلباء تنظیم نام نہاد بلوچ قوم پرستوں کی بھینٹ چڑگیا۔مفادپرست بلوچ لیڈروں نے تو اپنا کام کردکھایا لیکن اس کے باوجود بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے عظیم دوستوں نے بلوچ قومی حقوق کی جدوجہد جاری رکھا جہاں انہوں نے تنظیم کو بی ایس او عوامی کا نام دے دیا۔
بلوچ قومی سیاست انتشاراورعدم برداشت کی نظرہوچکا تھا۔ایسے میں قومی حقوق اور قومی شناخت برقرار رکھنے کیلئے نومولود بی ایس او(عوامی) بلوچ کازاورمحکومی کیخلاف جدوجہد برائے حق خوداراریت شروع کی۔1969ء کو گورنمنٹ مڈل سکول سورو مند میں بی او ایس (عوامی) تمپ زون سے چند دوست یونٹ سازی کیلئے آئے۔جہاں راقم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا یونٹ سیکرٹری منتخب ہوا۔ شہید غلام محمد کم عمری کی بنا تنظیم کا باقائدہ ممبر تو نہیں بن سکا لیکن باقائدہ ممبران کی طرح تواتر کے ساتھ بی ایس او کے سرکلز اور دیگر پروگراموں میں حاضر ہونا اپنا شیوہ بنالیا تھااور گھر میں اکثرمجھے تنگ کرتا رہتاکہ لالا مجھے بھی بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ممبر بنالے۔میں اور ابا ہمیشہ آپکو تسلی دیا کرتے تھے کہ کام تو آپ نے کرنا ہے لیکن وقت آنے پراور جب وہ وقت آئے گا تو آپ کو بلوچ قوم کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا جس کے لیے آپ کوابھی سے خود کو تیار کرنا ہے۔
اس قت بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن تمپ زون کا صدر واحد بلوچ تھا جو اس وقت واحدٹھکا کے نام سے مشہور تھا۔ایک دن جب واحد بلوچ تنظیمی دورے پرمند آیا تو اس دوران ہمارا تنظمی سرکل جاری تھا۔تو آپ(شہیدغلام محمد)اچانک کمرے میں داخل ہوگئے تو میں نے شہید کو کمرے سے باہرنکالنا چاہا لیکن واحد بلوچ نے مجھے منع کردیا اوراسے(شہید) کواپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔میں کچھ پریشان سا ہُوا کہ کہیں آپ (شہید) کوئی شرارت نہ کر لے۔مگر میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہمارا سرکل جاری تھاتو آپ(شہید) خاموشی،سنجیدگی اور پوری توجہ سے دیوان میں موجود دوستوں کی باتیں سن رہے تھے۔ آپ کی یہ سنجیدگی دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آیا جب مند میں شہیدوں کے مقبروں پہ فاتحہ پڑھنے کے بعد میں اور ابا ان کے متعلق باتیں کررہے تھے اور آپ (شہید) خاموشی سے ہماری باتیں سن رہے تھے۔شہید کی سنجیدگی سے متاثر ہوکر سارے دوستوں کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوگئی۔