بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے گوادر میں جاری پندرہ روزہ دھرنا، مظاہروں اور ریلیوں کو پاکستان کے منہ پر طمانچہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چند بنیادی حقوق کے لیے فوجی سنگینوں تلے عوامی احتجاج نے پاکستان، چین اور نام نہاد چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) جیسے استحصالی منصوبوں کے نام پر ترقی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ گوادرکے عوام نے ببانگ دہل ان منصوبوں کو مسترد کرکے واضح کر دیا ہے کہ ان منصوبوں کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں کو بتدریج بیدخل کرنا اور پنجابیوں اور چینیوں کو بڑے پیمانے پربسانا ہے۔ مقامی لوگوں کو ایک طرف پانی جیسے بنیادی سہولت سے محروم رکھا گیا تو دوسری طرف بڑے بڑے سرمایہ داروں، ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کی ملکیت والے ٹرالروں کے ذریعے سمندری وسائل کو لوٹا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں لوگوں کو گوادر سے ہجرت پرمجبور کیا جائے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نیخواتین کی بھرپور شمولیت کے ساتھ جاری احتجاج کومسلسل جبر اور عسکری طاقت اور عسکری دہشت گردی سے لوگوں کو دبانے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں مسلسل جبر اور لوگوں کو زندگی کی بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے نتائج مزاحمت کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ گوادر کے غیور عوام نے اپنے آباواجداد کی تقلید کرتے ہوئے گوادر کو بچانے کے لیے سیاسی مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے جو نہایت ہی حوصلہ افزا ہے۔ ان کے آباو اجداد نے ہر قابض کے خلاف مزاحمت کی ہے اور گوادر کو محفوظ رکھا ہے۔ موجودہ مظاہرے، دھرنا اور خواتین ریلی اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی مظالم اور بلوچ سیاست پر پابندیوں نے لوگوں کے حوصلوں کو شکست نہیں دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پورے بلوچستان میں ریاستی مظالم عروج پر ہیں۔ ملک ناز کی شہادت سے لے کر ھوشاپ واقعہ میں کمسن بچوں کی شہادت اور گچک ٹوبہ میں بچے اور بچیوں کی جبری گمشدگی، ریاستی مظالم میں تیزی کی دلیل اور ثبوت ہیں۔ ان مظالم کے خلاف بلوچستان کے ہر کونے اور سندھ کے مختلف علاقوں میں احتجاجوں نے ریاست کو پیغام دیا ہے کہ اس طرح کے بہیمانہ تشدد اور درندہ صفت حربوں سے بلوچوں کو زیر نہیں کیا جاسکتا۔
خلیل بلوچ نے کہا کہ گوادر کے مقامی لوگوں کی فوجی چیک پوسٹوں پر تذلیل، ہزارہا سالوں سے ذریعہ معاش ماہی گیری پر پابندی اور پینے کے صاف پینے کی عدم دستیابی کے خلاف حالیہ احتجاجوں کا تسلسل بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم کو آشکار کرتے ہیں۔ ریاستی مظالم کے سامنے سر نہ جھکانے کے پاداش میں عوام کو بنیادی سہولیات زندگی سے محروم رکھا گیا ہے۔ سات دہائیوں کی استحصال اور محرومیوں نے بلوچوں کو مزاحمت کا سبق دیا ہے جس کی مثال آج گوادر سمیت پورے بلوچستان میں واضح ہے۔ اس پر بلوچ عوام کا جذبہ اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد قابل ستائش ہے۔
انوں نے کہا کہ بلوچ قوم پرستی کی سیاست اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کی بدولت بلوچ قوم میں شعور و آگاہی پیدا ہوگئی ہے۔ قوم پرست جماعتوں پر اعلانیہ وغیر اعلانیہ پابندیوں، پیہم جاری نسل کشی، جبری گمشدگی، مارو اور پھینکو پالیسی اور جعلی انکاؤنٹرز جیسے مظالم کے ذریعے قوم پرستی کی سیاست کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن بلوچ قوم نے ثابت کردیا ہے کہ ان مظالم کے خلاف مزاحمت کی طاقت موجود ہے، وقت آنے پر اس کا مظاہرہ بھی ہوگا۔