میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف جمہوریت پسندوں نے احتجاج کا نیا طریقہ اپناتے ہوئے ‘کچرا ہڑتال’ شروع کردی ہے۔ جس کے بعد منگل کو ملک کے مرکزی شہر کی گلیوں میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار میں یکم فروری سے فوجی بغاوت کے خلاف جمہوریت پسندوں کا احتجاج جاری ہے، جب کہ سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاو¿ن میں اب تک 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
فوجی بغاوت کے خلاف اس احتجاج میں ایک نئی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے مظاہرین نے سول نافرمانی کی تحریک تیز کرنے کی کوشش کی ہے۔
مظاہرین نے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ سڑکوں، چوراہوں پر کچرا رکھیں۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک پوسٹر پر تحریر ہے کہ ‘یہ کچرے کی ہڑتال جنتا (فوج) کے خلاف ایک اقدام ہے اور ہر کوئی اس میں شامل ہوسکتا ہے۔’
ہفتے کو فوج مخالف مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں پر عالمی برادری نے مذمت کی ہے۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر سامنے آنے والی تصاویر میں ینگون میں کچرے کے ڈھیر نظر آرہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ مہم پیر کو ینگون کے مضافات میں لاو¿ڈ اسپیکر پر ہونے والے اعلانات کے جواب میں سامنے آئی ہے۔
پیر کو حکام نے لاو¿ڈ اسپیکر پر اعلان کرتے ہوئے رہائشیوں سے کہا تھا کہ وہ کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔
دوسری جانب میانمار میں قیدیوں کی مدد کے لیے قائم ایک تنظیم ‘اسسٹینس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز’ (اے اے پی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق قومی رہنما آنگ سان سوچی کی قیادت میں موجود منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد سے دو ماہ کے عرصے میں اب تک کم از کم 500 سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مظاہرین کے لیے سب سے زیادہ خون ریز دن ہفتہ 27 مارچ کا تھا۔ جب ایک روز میں ہلاک افراد کی تعداد 141 تک پہنچ گئی تھی۔
اے اے پی پی کا کہنا ہے کہ پیر کو 14 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے آٹھ ہلاکتیں ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں رپورٹ ہوئیں۔
عینی شاہدین کے مطابق پیر کو سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف بھاری ہتھیار کا استعمال کیا تھا۔ تاہم فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ ہتھیار کون سا تھا لیکن کہا جارہا ہے کہ یہ گرینیڈ لانچر کی کوئی قسم ہوسکتی ہے۔
میانمار کے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے فسادات میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔
دوسری جانب ساو¿تھ ڈاگن کے ایک رہائشی نے منگل کو بتایا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں رات بھر کارروائی کی ہے جن میں مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
شہری نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رات بھر علاقے میں فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور علی الصباح ایک گلی سے مکینوں کو مسخ شدہ لاش ملی جسے فوجی اہلکار اپنے ہمراہ لے گئے۔
پولیس اور فوج کے ترجمان نے مذکورہ واقعے پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔
ادھر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے میانمار کی فوجی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ قتل اور مظاہرین کو دبانے کی کوششوں کو روکیں۔
میانمار میں ہونے والے احتجاج کے پیچھے موجود مرکزی گروہوں میں سے ایک ‘جنرل اسٹرائک کمیٹی آف نیشنلسٹ’ نے پیر کو نسلی اقلیتی قوتوں کو لکھے گئے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ فوج کے ‘غیرمنصفافہ جبر’ کے خلاف کھڑے ہونے والوں کی مدد کی جائے۔
علاوہ ازیں میانمار کے تین دیگر گروہوں دی میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی، دی اراکن آرمی (اے اے) اور ٹا آنگ نیشنل لبریشن آرمی نے منگل کو ایک مشترکہ بیان میں فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ مظاہرین کے خلاف پرتشدد کارروائیاں بند کریں۔