Site icon Daily Sangar

ناگورنوقراباغ میں جنگ کا ذمہ دار ترکی ہے، آرمینیا

آرمینیا کے وزیراعظم نیکول پیشنیان نے ترکی کو اپنے ملک کے آذربائیجان کے ساتھ جاری مسلح تنازع کا ذمے دار قراردیا ہے۔انھوں نے ہفتے کے روز العربیہ سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ”اگر ترکی اس معاملے میں مداخلت نہیں کرتاتو ان کے ملک کا آذربائیجان کے ساتھ تنازع بھی نہیں ہوتا۔“

انھوں نے کہا:”اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ترکی نے جنگجوو¿ں اور دہشت گردوں کو بھرتی کیا اور انھیں جنگ میں جھونکنے کے لیے شام سے آذربائیجان میں منتقل کیا ہے۔“

وزیراعظم نیکول نے الزام عاید کیا ہے کہ ”ناگورنوقراباغ میں جاری فوجی کارروائی ترکی کی توسیع پسندانہ پالیسی کا حصہ ہے اور وہ اس پالیسی کے تحت مشرقِ اوسط میں سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی چاہتا ہے۔“

ان کا کہنا تھا کہ”میرے خیال میں ہمیں اس تمام صورت حال کا ترکی کی توسیع پسندانہ پالیسی کے فریم ورک کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ترکی بحر متوسط سے باہر لیبیا ، شام اور عراق تک پاو¿ں پھیلا رہا ہے۔بنیادی طور پر یہ سلطنتِ عثمانیہ کو بحال کرنے کی پالیسی کا حصہ اور کوشش ہے۔“

ترکی متعدد مرتبہ آذربائیجان کی مدد کے لیے ناگورنوقراباغ کے متنازع علاقہ میں شامی جنگجوو¿ں کو بھیجنے سے متعلق دعووں کی تردید کرچکا ہے۔البتہ اس کا کہنا ہے کہ آذربائیجان اگر فوجی مدد کی درخواست کرتا ہے تو ترکی اپنے فوجی بھیجنے میں کسی تردد کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔تاہم اس نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اب تک باکو حکومت نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی ہے۔

آرمینیائی وزیراعظم نے انٹرویو میں ناگورنوقراباغ میں جاری لڑائی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ان کا کہناہے کہ آرمینیا ہمیشہ سے مذاکرات کے لیے تیار رہا ہے۔

تاہم قبل ازیں وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ آذر بائیجان کے ساتھ ناگورنوقراباغ میں جاری مسلح تنازع کا کوئی ممکنہ فوجی حل نہیں ہے۔ترکی نے آذربائیجان کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا ہے اور اس نے آرمینیا پر آذری سرزمین پر قبضے کا الزام عاید کیا ہے۔

آذربائیجان اور ناگورنو قراباغ کی آرمینیائی نسل کی انتظامیہ کے تحت فوج کے درمیان 27 ستمبر سے لڑائی جاری ہے۔اس میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ترکی اس لڑائی میں آذر بائیجان کی بھرپور حمایت کررہا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ ناگورنو قراباغ کا کنٹرول آذربائیجان کے حوالے کیا جانا چاہیے جبکہ آرمینیا اس متنازع علاقے کی آرمینیائی نسل پر مشتمل انتظامیہ کی حمایت کررہا ہے۔ترکی کا کہناہے کہ اس کو اس تنازع کے بارے میں کسی بھی بین الاقوامی فورم پر بات چیت میں کردار ادا کرنے کا حق ہونا چاہیے جبکہ آرمینیا اس کا مخالف ہے۔

Exit mobile version