وفاقی حکومت، خاص طور پر چانسلر انگیلا میرکل نے تارکین وطن پس منظر والے باشندوں کو کورونا وائرس کے پھیلاو¿ کا ذریعہ سمجھنے کے رجحان کو غلط قرار دیا ہے۔
یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ جرمنی میں بھی کورونا کی دوسری لہر کے سبب اس وائرس کے خطرناک حد تک پھیلنے کی وجہ سے خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ عام تاثر یہ بن گیا ہے کہ نیا کورونا انفیکشن تارکین وطن پس منظر رکھنے والے باشندوں کے ذریعے پھیل رہا ہے۔
شادیوں کی بڑی بڑی پارٹیاں ہوں یا ترکی اور بلقان کے خطے کا اکثر و بیشتر سفر کرنے والے باشندے، موجودہ کورونا بحران کی صورتحال میں ان سرگرمیوں میں زیادہ تر غیر ملکی یا تارکین وطن کے پس منظر رکھنے والے باشندوں کو شامل پایا جاتا ہے۔ یہ سوچ خاص طور سے دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ’الٹرنیٹییو فار ڈوئچلنڈ‘ اے ایف ڈی کے حامیوں میں پائی جاتی ہے اور یہ سیاسی جماعت اس سوچ کا فائدہ بھی ا±ٹھا رہی ہے۔
اس ضمن میں وفاقی حکومت، خاص طور پر چانسلر انگیلا میرکل نے تارکین وطن پس منظر والے باشندوں کو کورونا وائرس کے پھیلاو¿ کا ذریعہ سمجھنے کے رجحان کو غلط قرار دیا ہے۔ میرکل نے رواں ہفتے ایک بیان میں کہا کہ تارکین وطن کورونا انفیکشن کے پھیلاو¿ کا ذریعہ نہیں بلکہ کورونا بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ ہیں۔ میرکل نے کہا کہ تارکین وطن اس وقت معاشی بحران سے سب سے زیادہ متاثرہ صنعتوں سے وابستہ ہونے کے سبب ان حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کورونا بحران کی موجودہ صورتحال میں ایک بڑا مسئلہ جو تارکین وطن کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت تارکین وطن کے لیے جرمن زبان اور انضمام کے کورسز بھی بہت کم دستیاب ہیں کیونکہ وبائی بیماری کے پھیلنے کے خطرات کے پیش نظر کورسز کی بہت سی پیشکش ختم کر دی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے انگیلا میرکل، وفاقی وزیر صحت ڑینز اشپاہن اور انضمام کے امور کی وزیر آنیٹے ویڈمن ماو¿س نے بڑی خاموشی سے جرمنی میں سرگرم تارکین وطن کی تمام تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ کورونا کی وبا کی صورتحال کے بارے میں بات چیت کے لیے ایک ’ورچوئل میٹنگ‘ کی۔ جرمن سیاست میں اس وقت جو موضوع سب سے زیادہ حساس مانا جا رہا ہے وہ ہے’ تارکین وطن اور کورونا‘۔
کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران ہی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی طرف سے میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا پر ’تارکین وطن کی جرمنی آمد ‘ کے موضوع کو بہت زیادہ اچھالا جانے لگا۔ اے ایف ڈی کے پارلیمانی دھڑے کی سربراہ آلیس وائیڈل اور پارٹی کے دیگر عناصر نے ٹویٹر پر جرمنی آنے والے مہاجرین کے بارے میں کورونا وائرس کے پھیلاو¿ کے تناظر میں پیغامات کے تبادلے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ آلیس وائیڈل اپنے ساتھیوں کے ساتھ ٹویٹر پر پیغامات کا تبادلہ کر رہی تھیں اور ایسے ہی ایک پیغام میں کہا گیا،”اب کوئی بھی کسی طرح کی مالی اعانت پروگرام کا مطالبہ نہیں کرنا چاہتا ہے، جس کی بحث میں ہم اس موضوع پر دوبارہ روشنی ڈالیں۔“ لیکن جرمنی کے تمام سیاسی حلقوں میں اس امر کی آگاہی پائی جاتی ہے کہ یہ موضوع قابل توجہ ہے کیونکہ بہت سے جرمن شہروں میں غیرملکیوں یا تاکین وطن باشندوں کے محلوں اور علاقوں میں کورونا انفیکشن کی شرح کافی بڑھی ہوئی ہے۔
گوشت کی مصنوعات بنانے والی صنعت اور دیگر صنعتوں میں زیادہ تر تارکین وطن کام کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورتحال کو کہیں سے بھی اس تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ تارکین وطن کورونا وبا کے پھیلاو¿ میں زیادہ ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ بچاو¿ کے اقدامات کو نظر انداز کرتے اور حفاظتی تدابیر پر کم عمل کرتے ہیں۔ وفاقی حکومتی سطح پر اس نکتے کو زیادہ اجاگر کیا جا رہا ہے کہ زیادہ تر تارکین وطن ایسے پیشوں اور تجارتی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں جہاں کورونا انفیکشن کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر لاجسٹکس، گوشت کی مصنوعات کی صنعت، کیٹزنگ وغیرہ کے لیے ہر سیزن میں تارکین وطن بھرتی کیے جاتے ہیں۔ انہیں اکثر نہایت تنگ جگہوں پر رہائش ملتی ہے۔ یورپی آرگنائزیشن برائے اقتصادی تعاون و ترقی’او ای سی ڈی‘ کے اندازوں کے مطابق کووڈ انیس کا شکار ہونے والے مریضوں اور اور اس بیماری میں جان سے جانے والے افراد کی ک±ل تعداد میں ایک واضح تناسب تارکین وطن باشندوں کا ہے۔ اس آرگنائزیشن کے ایک ماہر تھوماس لیبگ نے رائٹرز کو بتایا کہ تارکین وطن کمیونٹی میں کورنا انفکشن کا تناسب بہت زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے رہائشی علاقے بہت تنگ ہیں اور یہ کام یا روزگار اور دیگر ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ انہیں کورونا انفیکشن کے حملے کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کینیڈا، ڈنمارک، نوروے،پرتغال اور سویڈن میں تارکین وطن برادری میں ان ممالک میں پیدا ہونے والے مقامی باشندوں کے مقابلے میں کورنا وائرس کے حملے کا خطرہ دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔