Site icon Daily Sangar

ہائے ممتا جیسے غازی ہم سے بچھڑ گئے , سمیر جیئند بلوچ

وطن،قوم ننگ ناموس،سب سے بڑھ کر قومی غلامی کے طوق لعنت کو اپنے اور اپنے قوم کے گردن سے نکال کر پھینکنے والے بلوچ قومی سپوتوں کی کمی ہمیشہ سے بلوچ قوم کو نہیں رہی ہے اور یقینا آئندھ بھی نہیں رہے گی۔کیوں کہ بلوچ مائیں،خان محراب خان،حمل جیئند،دادشاہ، یوسف عزیز مگسی،حمید،فدا،اکبر خان،غلام محمد،بالاچ،میرالمک، شیہک جان،سردو،درویش،ریحانجان،بلال،وسیم،سلمان حمل جیسے سینکڑوں بچے جنم دے رہے ہیں۔ جو اپنے سرپرکفن باندھ کر وطن کے آزادی کیلئے دن رات خون پسینہ بہانے سے نہیں ہچکچاتے۔ایسی ہی سپوتوں میں سے غازی ظہور احمد عرف اسحاق شہید بھی ایک ہیں۔جس نے آواران میں نوسالہ جہد دوران قابض ریاست کے کرایہ کے قاتلوں کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کیئے۔ہروقت دشمن کے اعصاب پر راج کرتے رہے اور چلے، بھی ایسے گئے کہ دشمن اپنے سر ہمیشہ پیٹتا رہے کہ،جس شخص کے مارنے اور پکڑنے کیلئے انھوں نے لاکھوں روپے اڑائے جنگی ہیلی کاپٹر استعمال کئے سینکڑوں خانہ بدوشوں کو پہاڑ چھوڑنے پر مجبور کئے۔ کہ کسی نہ کسی طرح غازی اسحاق کو قابو کرنا ہے۔مگر وہ تھے کہ وطن کے عشق میں اسے نہ جیٹ جہاز،ہیلی کاپٹر ایس ایس جی کمانڈوز،زمینی فوجی(کیڑے)اس کے علاوہ تھے نہ جھکاسکے نہیں خرید سکے۔ان کا خیال تھا کہ یہ محض ایک چرواہا ہی ہے۔جسے ڈرانے یالالچ دیکر خریدا جاسکتاہے۔مگر وہ یہ بھول گئے کہ علم صرف سکول کے دیواروں سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ماناکہ بلوچ سیاسی سماجی اور مسلح تنظیمیں ڈگری نہیں بانٹتے مگر علم ضرور بانٹتے ہیں۔پاکستان کے عینک سے دیکھاجائے تو بلوچ آزادی پسند تنظیمیں دہشت گرد،جاہل،گنوار،انپڑھ،چرواہے وغیرہ ہیں۔لیکن علمی نقطہ نگاہ سے دیکھاجائے تو بلوچ سرفیس اور زیرزمین تنظیمیں جو قابض ریاست

سے آزادی چاہتے ہیں۔وہ یونیورسٹیاں ہی کہلانے کے مستحق ہیں۔یہاں ہر چیز بارے علم دی جاتی ہے۔ انسانیت،تہذیب سکھائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کوئی عام چرواہا کسی چرواہے کے گھر سے سیدھا تنظیم میں شامل ہونے آئے ہو،چند سالوں میں یہی چرواہے میں وہی خوبیاں جو یونیورسٹی کے طالب علم میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہوتے ہوں، شفٹ ہوجاتے ہیں۔ اب اسے بھی اتنا پتاہوتاہے کہ انسانیت تہذیب،اخلاق کردار،زبان قوم ،دوست،دشمن،لالچ خود غرضی کیاہوتے ہیں۔سب کچھ پر دسترس حاصل کرلیتاہے۔یہ یقینا ان کامریڈ ساتھیوں کا کمال ہے جو پڑھے لکھے ہیں کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجنیئر،پروفیسر،وکیل،غرض ہر زندگی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے قومی سپوت ان نوجوانوں کی ذہنی تربیت کرکے انھیں مختلف علوم بارے جان کاری دیتے رہتے ہیں،جس کی وجہ سے وہ بھی چند سالوں میں مقرر بن جاتے ہیں۔یہ تعریفیں اس لئے نہیں کرتا کہ لوگ خوش ہوں بلکہ ایک حقیقت بیان کررہاہوں،جو بحیثیت طالب علم میرے مشاہدے اور علم میں ہیں اور عملاََ ایسے کردار میرے آنکھوں کے سامنے سے گذر ے ہیں۔مثلاََ شہید شیہک،شہید سردو، شہید علی نواز گوہروغیرہ کسی یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی ہولڈر نہیں تھے۔مگر ان کے اخلاق،کردار،دانائی کسی بھی طالب علم سے کم نہ تھی۔ شہید شیرجان بھی غازی اسحاق کے رشتہ دار اور ایک چرواہے تھے۔اس نے بھی اپنے کردار، ثابت قدمی محنت سے اپنے جوہر دکھائے۔وہ جب بھی سیاست،بلوچ کی مظلومیت پر بات کرتے کسی کویقین نہیں ہوتاکہ اس نے کوئی اعلی یونیورسٹی سے علم حاصل نہیں کی ہوگی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک چرواہے کو بنسبت ایک پاکستان کے سکول سے فارغ ہونے والے نوجوان کے علم پر دسترس جلدی حاصل ہوتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے پختہ یقین ہے کہ میں انپڑھ ہوں۔ جبکہ اس کے مقابل سکول سے فارغ ہونے والا جوان اس رعوب میں رہتاہے کہ میں پڑھالکھاہوں (مگر حقیقت میں ڈگری یافتہ اکثر ہوتے ہیں)۔اس غلط فہمی کی وجہ سے وہ اپنے کامریڈ ساتھیوں سے مطلوبہ علم حاصل نہیں کر پاتے۔ جو ایک انپڑھ حاصل کر رہاہوتاہے۔یہاں میرامقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ سکول ہی نہ پڑھاجائے بلکہ یہ ہے کہ اسکول سے علم حاصل کریں ڈگری نہیں۔اگر علم حاصل کریں گے تو اپنے مقصد سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ہر وقت قوم تحریک سامنے آپ کے آنکھیں نہیں جھکیں گے۔ہر عمل دوران بوجھ بننے بجائے بوجھ اٹھانے کے قابل ہونگے۔محض پروپیگنڈہ کی مشین بننے بجائے،تعمیری سوچ پیداکرنے بوجھ اٹھانے برداشت کرنے کی مشین بن جائیں گے۔غازی اسحاق کی طرح ایک کامریڈ ساتھی ممتاجیسا شفقت رکھنے والے قومی ہیرو غازی اور شہید بنیں گے۔جس طرح انھوں نے ایک مختصر دورانیہ میں دشمن کیلے آگ اور دوست کیلے پانی بنے تھے۔کہنے کو وہ چرواہے تھے مگر حقیقت میں وہ ایک رہبر رہنماتھے۔وہ اپنے جہد آزادی کیلئے جان دینے والے پروانے تھے۔تب ہی تو بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے کہاکہ میرے کامریڈ ساتھی سیکنڈ لیفٹینٹ تھے۔اسی منصب پر پہنچ کر سرزمین کے دفاع کیلئے اپنے جان کا نظرانہ پیش کرکے امرہوگئے۔تنظیم عہد کرتاہے ان کے آزادی کے مشن آزاد بلوچستان کو پائے تکمیل تک پہنچائیں گے۔
ورنہ آواران ہی سے نام نہاد سکول سے فارغ ہونے والے ڈگری یافتہ،امیربخش عرف حاجی،نعیم عرف دوستین اور جمعہ عرف بیبگر جیسے نام نہاد سرمچار اور کمانڈر تھے جو اب بھی انسان تو اپنی جگہ آواران کے بھیڑبکری، کتے، گدھے اور بلیوں کو دیکھ کر آنکھیں نیچی کرکے گذرتے ہیں کہ کہیں یہ حیوان بھی ہتھیار پھینک کر دشمن کے گود میں بیٹھنے کا طعنہ نہ دیں۔جیسے کرادار بھی تھے جن پر تنظیم یاقوم اب گھاس نہیں ڈالتی۔اب
یہ ہر سرمچار اور بلوچ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ غازی اسحاق شہید جیسا نام کماتے ہیں یا نعیم،امیربخش حاجی اور جمعہ بیبگر بن کر بے ضمیری کی زندگی گذارتے ہیں؟

Exit mobile version