Site icon Daily Sangar

جاپان کے وزیرِ اعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے

جاپانی تاریخ میں وزیرِ اعظم کے عہدے پر سب سے طویل مدت گزارنے والے شنزو آبے ’طبی بنیادوں‘ کی بنا پر اپنے عہدے سے استعفیٰ ہوگئے ہیں۔

اس موقع پر 65 سالہ سنزو آبے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیماری کے باعث حکومت کے لیے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے۔

حکمراں جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے حکام نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے۔

وہ کئی سالوں تک بڑی آنت کی بیماری السریٹیو کولیٹیس کے شکار ہیں تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ حالیہ عرصے میں ان کی طبعیت مزید خراب ہوئی ہے۔

بظاہر وہ آج (جمعے کو) استعفیٰ نہیں دیں گے، بلکہ تب تک اپنے عہدے پر رہیں گے جب تک کہ پارٹی ان کا نیا جانشین منتخب نہیں کر لیتی۔

سنہ 2012 میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد رواں سال وہ جاپان کے طویل ترین عرصے تک عہدے پر رہنے والے وزیرِ اعظم بن گئے۔

وزیرِ اعظم آبے انتہائی قدامت پسند اور قوم پرست شہرت رکھتے ہیں، جبکہ معاشی ترقی اور اپنی جارحانہ معاشی پالیسی کے لیے بھی مشہور ہیں جسے اب ‘آبینامکس’ کہا جاتا ہے۔

سنہ 2007 میں انھوں نے وزارتِ عظمیٰ کی اپنی پچھلی مدت سے اچانک استعفیٰ دے دیا تھا جس کی وجہ اس وقت بھی السریٹیو کولیٹیس تھی۔

وہ اپنے لڑکپن سے ہی اس بیماری کے شکار ہیں۔

انھوں نے جاپان کا دفاع مضبوط کیا ہے اور دفاعی اخراجات بڑھائے ہیں مگر وہ جاپانی آئین کی شق نو برائے امن پسندی پر نظرِ ثانی میں ناکام رہے ہیں جس کے تحت اپنے دفاع کے علاوہ کسی بھی مقصد کے لیے فوج تیار کرنے پر پابندی ہے۔

ایک ہفتے میں ہسپتال کے دو دوروں نے وزیرِ اعظم آبے کی صحت کے حوالے سے خدشات کو جنم دیا تھا۔

انھوں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ انھیں ہسپتال کا دورہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تاہم ان میں سے ایک دورہ تو آٹھ گھنٹے تک جاری رہا تھا۔

اس سے قبل حکمراں جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے ان کے استعفے کی قیاس آرائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہیں۔

منگل کو ان کے قریبی افراد میں ے ایک نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انھیں لگتا ہے وزیرِ اعظم آبے اپنی مدت مکمل کریں گے۔

ایل ڈی پی کے ٹیکس پینل کے سربراہ اکیرا اماری نے اس تجویز کو مسترد کیا کہ وزیرِ اعظم پارلیمان کے ایوانِ زیریں کو تحلیل کر کے فوری طور پر عام انتخابات منعقد کروائیں گے۔

انھوں نے کہا: ‘اس وقت فوری طور پر عام انتخابات منعقد نہیں ہوں گے۔’

لیکن اس کے باوجود وزیرِ اعظم آبے کی بڑھتی ہوئی تکلیف کے بارے میں افواہیں گرم ہیں۔

یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کورونا وائرس کے خلاف ان کے اقدامات پر تنقید کی جا رہی ہے اور ان کی کابینہ کی مقبولیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

جاپانی قوانین کے تحت اگر وزیرِ اعظم آبے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کر سکیں تو ایک قائم مقام وزیرِ اعظم عہدہ سنبھال لے گا جس کے عہدے کی میعاد پر کوئی حد نہیں ہے۔

نائب وزیرِ اعظم تارو آسو جو کہ وزیرِ خزانہ بھی ہیں، وہ قائم مقام وزیرِ اعظم کے لیے سرِفہرست امیدوار ہیں اس کے بعد چیف کیبنٹ سیکریٹری یوشیہائید سوگا کا نمبر ہے۔

قائم مقام وزیرِ اعظم انتخابات منعقد نہیں کروا سکتا لیکن وہ دیگر معاملات مثلاً معاہدوں اور بجٹس پر تب تک رہنمائی کر سکتے ہیں جب تک کہ پارٹی کے نئے سربراہ اور وزیرِ اعظم کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔

استعفیٰ یا استعفے کا ارادہ ان کی جماعت ایل ڈی پی کے اندر نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ کا مرحلہ شروع کر دے گا۔

اس انتخاب کے بعد ایک پارلیمانی انتخاب ہوگا جس میں نیا وزیرِ اعظم منتخب کیا جائے گا۔

جیتنے والا شخص ستمبر 2021 تک وزیرِ اعظم آبے کی مدت کے اختتام تک اس عہدے پر رہے گا۔

Exit mobile version