Site icon Daily Sangar

ترکی کو بحیرہ روم میں توانائی کی تلاش سے کوئی نہیں روک سکے گا، ایردوان

بحیرہ روم کے متنازعہ حصے میں ترکی کی جانب سے تیل کی تلاش کے لیے ایک بحری جہاز بھیجے جانے کے بعد ترکی اور یونان کے درمیان تنائو میں اضافہ ہوا ہے۔ انقرہ نے کہا ہے کہ وہ پابندیوں یا دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ بین الاقوامی کوششیں ترکی کو بحیرہ روم کے متنازعہ پانیوں میں توانائی کی تلاش سے نہیں روک سکیں گی۔ یہ بات انہوں نے یونان، یورپی یونین اور ترکی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں کہی ہے۔

ترکی کے شمال مشرقی شہر رزے میں اپنے ایک خطاب کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا، ”ہم پابندیوں اور دھمکیوں کے سامنے جھکیں گے نہیں… ہم اپنے سمندری علاقے پر ڈاکہ زنی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔“

ترکی نے پیر 10 اگست کو اپنا ایک سائنسی تحقیقی بحری جہاز ‘Oruc Reis’ قبرص کے قریبی سمندر میں بھیجا تھا جس کا مقصد وہاں تیل اور گیس کی موجودگی کا کھوج لگانا تھا۔ اس کے ردعمل میں یونان نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اپنے جنگی بحری جہاز اس علاقے میں بھیج دیے تھے اور ان دونوں حریف ممالک کے درمیان لفظی جنگ شروع ہو گئی تھی۔

یورپی یونین اور یونان دونوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی کی جانب سے اس سمندری علاقے میں ڈرلنگ غیر قانونی ہے۔ یورپی یونین کے قانون سازوں نے جمعہ 14 اگست کو ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران ترکی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صورتحال کو کشیدہ ہونے سے بچایا جائے۔

ترکی کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ سمندری علاقہ اس کے اقتصادی خطے میں آتا ہے۔

ہفتے کے روز اپنے خطاب کے دوران ایردوآن کا مزید کہنا تھا، ”اس معاملے پر ہمارا ملک مکمل طور پر حق پر ہے اور ہم اپنے حقوق کا تحفظ جاری رکھیں گے، جس کے تمام تر طریقے بروئے کار لائے جائیں گے۔“

ترک صدر کا مزید کہنا تھا کہ اورک رائس قبرص اور یونانی جزیرے کریٹ کے درمیان موجود ہے اور وہ 23 اگست تک اپنا کام جاری رکھے گا۔

جمعہ 14 اگست کو ہونے والی ورچوئل میٹنگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے متنبہ کیا کہ ترکی کے بحری اقدامات ‘جارحانہ واقعات کے خطرے میں اضافہ‘ کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی کے ساتھ تعلقات میں بدتری سے پوری یورپی یونین کے دور رس تزویراتی نتائج کا سبب بن رہے ہیں، مشرقی بحیرہ روم سے بھی کہیں آگے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

فرانس نے 13 اگست کو اعلان کیا تھا کہ وہ یونان کی مدد کے لیے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں اپنی موجودگی میں ‘وقتی طور پر اضافہ‘ کر رہا ہے۔

ہمسایہ ممالک ترکی اور یونان پرانے حریف ہیں اور ان کے درمیان کئی ایک مسائل موجود ہیں۔ ان میں قبرص کے علاوہ کئی ایک سمندری علاقوں اور فضائی حدود کے حوالے سے تنازعات موجود ہیں۔ وہ بحیرہ ایجیئن میں موجود ایک غیر آباد جزیرے کے معاملے پر جنگ کے دہانے تک بھی پہنچ گئے تھے۔

Exit mobile version